Friday, 2 May 2014

(•۝• ѴƲ cℓʋв •۝•) جلے دل کے پھپھولے

ایک پاکستانی محترمہ کا انٹرنیٹ بلاگ
جلے دل کے پھپھولے۔۔۔۔۔۔
دنیا کے پڑھے لکھے معاشروں میں ہر شخص اک ترقی پسند یا بہتری کی سوچ رکھتا ہے… اس کی سوچ کا تعلق صرف اس کی اپنی ذات اور خاندان کے فائدوں کی حد تک نہیں ہوتا بلکہ وہ اس سے اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی مستفید کرتا ہے… ان ملکوں میں بھی سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں، دینی گروہ ہوتے ہیں… لیکن وہ اک دوسرے کے خلاف کھڑے ہو کر عوام کو تقسیم نہیں کرتے… نہ اپنے معاشرے میں نفرت کو
بڑھنے دیتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں… 
.
پاکستان میں تعلیم کا گرتا ہوا معیار اور جہالت کا بڑھتا ہوا تناسب کوئی اختلافی مسئلہ نہیں… لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب چند بچے کچھے پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ لوگ بھی اپنے تمام اختیارات کے دعوؤں کے باوجود کوئی تعلیمی بہتری لانے کے معاملے  بے بس نظرآتے ہیں… جو خود بے بس ہو وہ کسی دوسرے کو اختیار کیسے دلا سکتا ہے… اور اگرکوئی یہ کہے کہ ووٹ ملے گا تو کام ہوگا اور پارلیمنٹ میں بل پاس ہوگا تو اس سے بڑھ کر دھوکے باز کوئی نہیں… 
.
پاکستانی معاشرہ مغربی دنیا کے پڑھے لکھے معاشروں سے بہت مختلف ہے… سماجی قدروں کے اعتبار کے لحاظ سے بھی اور مذہبی عقائد کے لحاظ سے بھی… اور ترقی کے نام پر ان دونوں سے ٹکرانا بیوقوفی نہیں جرم بھی ہے کیوں کہ یہ صرف اور صرف فساد اور نفرت کو جنم  دیتا ہے … اور یہی ہو بھی رہا ہے… آزادی اور حقوق کے مغربی تصور کو پھیلانے کے لئے کسی بھی قسم کے میڈیا کا استعمال سب سے زیادہ خطرناک ہے اگر سوچ سمجھ کر نہ کیا جائے… لیکن وہ ہو چکا ہے… آج ہماری نوجوان نسل پریشان حال کھڑی ہے کہ کدھر جائے…
بقول غالب…
ایمان مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر  
کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے 
.
یہ بات ٹھیک ہے کہ سیاستدانوں نے پاکستان کو پوری دنیا میں نہ صرف بدنام کیا بلکہ اکیلا بھی کردیا… لیکن عوام بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے… خاص کرپاکستانی تارکین وطن… جنہوں نے باہر ملکوں میں رہ کر بھی  کبھی پاکستان کے حق میں کوئی لابی، کوئی فورم نہیں بنایا… یہ سارے کام ہم سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیتے ہیں… گلوبلا ئزیشن کے بعد دنیا تیرا میرا ملک نہیں رہ گئی… ہر ملک کے دوسرے ملک کے ساتھ مفادات ہیں اور کسی ایک ملک کا خطرے میں ہونا اس پورے خطّے کے لئے خطرہ ہوتا ہے…  لہٰذا اگر پاکستانی چاہتے تو بہت سے معاملات میں دلچسپی لے کر حکومت اور سیاسی جماعتوں پر دباؤ ڈال سکتے تھے جیسے کہ تعلیم، صحت، ماحولیات، انصاف… صرف عطیات بھیج دینے سے تو قومی فرض ادا نہیں ہو جاتا… اب بھی کیا بگڑا ہے… 
.
کب کب ایسا نہیں ہوتا کہ جب جب کمپیوٹر پر کچھ لکھنے بیٹھتی  ہوں تب تب کمپیوٹر کے سب سب بانیوں کوسلام کرنے کو لب مل مل جاتے ہیں، دل کھل کھل جاتا ہے، ذہن دھل دھل جاتا ہے… گو کہ گفتگو میں تکرار ایک عیب سمجھا جاتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں… انگریزی میں یہ بھی زبان خوبی کہلاتی ہے…
.
اگر کمپیوٹر شیطانی ایجاد ہے بھی تو فی الحال تو آدھے سے زیادہ اسلام کو پھیلانے اور اسلامی مظاہروں کا کام اسی پر ہو رہا ہے… اردو بھی شاید اب کمپیوٹر پر ہی لکھی پڑھی جا رہی ہے… میں نےتو کچھ بچوں کو کہا بھی کہ بھی انٹرنیٹ پر جواردوٹا ئیپنگ کی سا ئیٹس ہیں ان پر اردو ٹائپ کیا کرو تو اردو کی ہجے ٹھیک ہو جا ئیں گے… شعروشاعری بھی ہے، کہانیاں بھی، محاورے بھی… طالبعلموں کے لئے تو بہت فاعدہ مند ہے… 
.
 ڈاکٹرعلی رضا نقوی کی خبر سنی تو دل باغ باغ ہو گیا… ایران کی حکومت نے انہیں کافی ایوارڈز دیے ہیں اوراب ایران کی حکومت نے انھیں اپنے ملک کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ سے نوازا ہے… ڈاکٹرعلی رضا نقوی ایک پاکستانی ہیں… انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام، دونوں کو علم سے کوئی دلچسپی نہیں… بالکل  ٹھیک کہا…با لکل صحیح اگر اس ملک میں علم کی اہمیت ہوتی تو علم کے  ساتھ گورنر عشرت العباد اتنا بڑا اور برا مذاق نہ کرتے کہ رحمن ملک کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دیتے… کھلا جرم ہے یہ… لیکن یہ دلچسپی جب پیدا ہوتی ہے جب اہل زبان اپنی زبان میں نئے خیالات کا تعارف کرتے ہیں اور وہ بھی اپنی قوم کے مزاج، ذہنی سطح اور مختلف عمروں کا خیال رکھتے ہوۓ… خیر یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اردو میں کچھہ لکھا ہی نہیں جا رہا… حقیقت یہ ہے جو ڈاکٹرعلی رضا نقوی نے بیان کی کہ عوام کو دلچسپی نہیں…
.
تو ایک کام یہ بھی ہے کہ عوام کو بد تمیزی اور جہالت سے نکال کر شائستگی اور اردو کی طرف کیسے لایا جائے… اکثر لوگ شائستگی کا مطلب لیتے ہیں چکنی چپڑی باتیں مسکراتے ہو ۓ کرنا، بلاوجہ لوگوں کی تعریف کرنا، جیسے کہ صبح کے شوز میں ہوتی رہتی ہیں… شائستہ نام رکھنے سے، ہندی تلفظ میں بات کرنے سے، بھارتی اداکاروں کے قدموں پر گر پڑنے سے، انکو خدا بنا کر پیش کرنے سے کوئی شائستہ نہیں ہوجاتا… بلکہ یہ امن، دوستی اور انسانیت کا نہایت گھٹیا تصور ہے… لیکن کیا کریں، جب کوئی اپنی ذاتی ترقی اور پیسے کے پیچھے پاگل ہوجائے تو اس سے کچھ بھی توقع رکھی جا سکتی ہے… 
.
ویسے لوگوں کو میری باتیں پسند نہیں آتیں، کہتے ہیں اس طرح کہنے سےلوگوں کے دل ٹوٹ جاتے ہیں… ارے بھئی، لوگ پاکستان کی قدریں برباد کریں، ملک توڑیں، پاکستانیوں کو غلط سوچ دیں، اردو زبان کے ساتھ مذاق کریں، عورت کی عزت کو ناچنے گانے جلوے دکھانے کے لئے مخصوص کر دیں، معصوم بچوں کے ذہنوں کو منی اور شیلا کی جوانیوں کے تصور سے آلودہ کریں اور میں شائستگی دکھاؤں انکو… انکے دل ٹوٹنے کا خیال کروں، ارے ان کمبختوں کا تو سر توڑ دینا چاہیے… اور اس کالے  بھوتوں کے بادشاہ کا جو لندن میں بیٹھا ہے قیمہ کر دینا چاہیے…
.
خیر… شائستگی کا مطلب ہے ڈھنگ کی باتیں، جس میں ملک و قوم کی عزت اور غیرت کے ساتھ ساتھ اپنے لوگوں کی ذہنی تعمیر کا بھی خیال رکھا جائے… 
 
.
اس سلسلے میں کچھہ ٹی وی ڈراموں نے اچھی کوشش کی… جیسے کہ "ہمسفر" میں احمد فراز کی غزل… سب کو یاد ہو گئی… ڈراموں کے نام فیض احمد فیض اور دوسرے شاعروں کے مصروں پر بھی اچھی بات ہے… کاش مزاحیہ ڈراموں کے نام محاوروں پر ہوتے… بلکہ پاکستان کی ساٹھہ فیصد آبادی یعنی بچوں کے لئے, جو کہ اکثریت ہونے کے باعث اپنا جمہوری حق رکھتے ہیں, چھوٹی چھوٹی کہانیاں تو بنائی ہی جا سکتی ہیں… دس ہزار قسم کے علمی مقابلوں کا انتظام کیا جا سکتا ہے… بچے ویسے ہی مقابلوں سے بڑے خوش ہوتے ہیں… اتنے چینلز ہیں لیکن بچوں کے لئے ایک بھی نہیں… دو چار پروگرامز ہوتے ہیں وہ بھی شاید ہی کوئی بچہ دیکھتا ہو… سب ہندی ڈبنگ کیے ہو ۓ انگلش چینلز دیکھتے ہیں…  دنیا کے بچے جب بڑے ہوۓ تو انہوں نے اپنے بچوں کو کھیلوں کے نئے سٹائلزدیے… پتنگوں، غبّاروں، پتلیوں کے تماشوں، سٹریٹ گمیز، کو نئی شکل، نئے رنگ دیے… امریکا اور دوسرے ممالک میں بڑے بڑے اداکار بچوں کی فلموں میں کام کرتے ہیں، مشہور گلوکار گانے گاتے ہیں، بڑے بڑے با صلاحیت ہدایتکار اور مصنف اس میں دلچسپی لیتے ہیں…
.
پاکستان کی فلمی تاریخ میں "بیداری" واحد فلم ہے جس میں سنتوش کمار صاحب نے کام کیا، کوئی ہیروئن نہیں تھی، صرف بچے اور انکا استاد جو انھیں پاکستان سے محبت کا درس دیتا رہتا ہے… "آؤ بچوں سیرکرائیں تم کو پاکستان کی"، "یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران"، "ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکل کے"… اسی فلم کے گانے تھے جو آج تک گائے جا رہے ہیں… ٹی وی پر "عینک والا جن"، سہیل رعنا کے موسیقی کے پروگرامز کے علاوہ کوئی بچوں کی چیز نہیں جو بچوں نے دیکھی ہو شوق سے… اور تو اور چودہ اگست پر یوم آزادی کے پروگرامز میں بھی وہی گھسے پٹے اداکار گلوکار آ جاتے ہیں پرفارمنس کے لئے اور بڑے بوڑھے وزراء اور پرانے اداکار گلوکار خوش ہو کر تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں… ارے ایک ایک منٹ کا سکرپٹ لکھ کر نہیں دیا جا سکتا بچوں کو کہ صدر، وزیراعظم کے سامنے پرفارم کر سکیں…  
.
بچے بچوں سے سیکھتے ہیں اور شوق سے سیکھتے ہیں… پاکستان کے بچوں کا تو جواب نہیں… پہاڑوں جیسی ہمّت ہے انکی… اور دریاؤں اور سمندروں جتنا خون جگر، جو ساری زندگی رستا رہتا ہے اور ختم نہیں ہوتا… کیسے کیسے حالات سے گذرتے ہیں، عجیب بے ہنگم ماں باپ کو برداشت کرتے ہیں… بدتمیز، جاہل، گا لیاں دینے والے اور مجرم سیاست دانوں اور حکمرانوں کی دہشت سہتے ہیں… اور ان سے توقع رکھی جاتی ہے کہ تہذیب یافتہ، تعلیم یافتہ، ترقی یافتہ بڑے ہوں… کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ بچوں کا دل چاہتا ہوگا کہ کاش ہمارے ماں باپ ہمارے ہاں پیدا ہو ۓ ہوتے تومزہ چکھا دیتے والدینیت کا…
.
انکی پیدائش کے وقت سے جو ڈرامہ شروع ہوتا ہے تو وہ وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک وہ اذیت سے چیخ نہ اٹھیں… اور اس وقت مولوی حضرات سامنے آ جاتے ہیں اپنے جنّت اور جہنّم کے فتوے لے کر… حمایت علی شاعر کے الفاظ کو تھوڑا سے تبدیل کردیں تو ماں باپ سے کہا جا سکتا ہے…
تخلیق کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جان کا زیاں
اولاد کو اولاد سمجھ مشغلہ دل نہ بنا…
بھوک، پیاس، گندگی، خوف، بیماریاں، زبان اور قومیت کے بارے میں احساس کمتری، چالیس چالیس پچاس پچاس سالوں کی عمروں والے زندہ کارٹون…. کوئی اچھا نظارہ نہیں پاکستان اور خاص کر کراچی کے بچوں کے پاس، جگہ جگہ تو الطاف حسین کی تصویروں کی صورت میں اذیت کے سامان موجود ہیں… اچھی سوچ آئے کہاں سے…

انگریزی میں لکھتے لکھتےخیال آیا کہ آخر لکھہ کس کے لئے رہی ہوں۔ جس قوم سے میرا تعلق ہے وہ دنیا میں بدنام بہت ہے۔ لہذاانگریزتو توجہ دینگے نہیں۔۔۔۔۔ اور پھر انکے ہاں ایک سے ایک لکھنے والا موجود ہےاور اتنے ہی پڑھنے والے۔۔۔۔۔ ترقی یافتہ لوگ ہیں۔۔۔۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے سال میں ایک مرتبہ وہ اگر ہمیں پڑھیں بھی تو کیا پڑھیں۔ پاکستان کےسیاسی حالات یامعاشی حالات یا معاشرتی اقدار یا تعلیمی سرگرمیاں یا مذہبی انتہا پسندی یا ہماری اجتماعی بے راہ روی کی نت نئی کہانیاں۔۔۔ ان کہانیوں سےتو ملک سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کو دلچسپی نہیں غیر ملکیوں کو کیا ہو گی۔۔۔۔۔
ملک میں رہنے والے وہ افراد جو انگریزی جانتے ہیں انھیں کدوبھی میری باتیں سمجھہ نہیں آتیں کیونکہ انکی  تعلیمی بنیاد اٹھارویں صدی کے انگریز شاعروں اور ناول نگاروں کی سوچ پر ہوئی ہوتی ہے۔ یا انگریزوں کے عطا کردہ انسانیت کےفلسفے پر۔۔۔۔ پھر بات یہ بھی ہے کہ یہ سیاستدانوں اور دینی لوگوں کے لئے بے ضرر ہوتے ہیں۔۔۔۔ انکے مطلب کا مصالحہ بھی موجود نہیں۔۔۔۔
انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں اب رہ گئے بالکل واجبی سی انگلش سمجھنے یا بالکل نہ سجھنے والے۔ انھیں میری واجبی سی انگلش سے کیا کام۔۔۔۔ انکے مطلب کی چیزیں گھٹیا ہندوستانی فلموں اور گانوں کی صورت میں انٹرنیٹ پر موجودہیں۔۔۔۔۔
باقی بچ گئی بے شعورعوام۔۔۔ جسکےبل پہ سارے سیاستدانوں اور دینی لوگوں کے کاروبار چل رہے ہیں۔۔۔۔  سیاستدانوں اور دینی لوگوں کی ذہنی ہم آہنگی اور ورکنگ کوآرڈینیشن یعنی کام کرنے کے باہمی طریقوں نے عام عوام کو اپنی ہی زندگی سے بیزارکردیاہے۔۔۔ وہ ملک وقوم کا کیا سوچیں گے۔۔۔
عجیب سی بات لگتی ہے کہ الله رسول اسلام قرآن کے لئی جان دینا انتہا پسندی کہلاتا ہے۔ لیکن بھٹو خاندان۔ زرداری نواز شریف۔ الطاف حسین۔ شاہی سید اور نہ جانے کتنے سیاسی اور دینی لیڈرز ہیں جنکی پارٹی یا جماعتوں کے لئے جان دینا شہادت ہے۔۔۔۔۔  دنیا بھر کا فساد مچا نے ۔ سارے زمانے کی کرپشن کرنے اور ملک وقوم کا پرچم بیچنے کے باوجود اتنا بڑا رتبہ۔۔۔۔ کاش کہ شہید ہونا اتنا ہی آسان ہوتا۔۔۔
ہماری روایات میں سے ایک یہ بھی ہےکہ جب ہمیں اپنے بچوں کو تہذیب نرمی محبت انسانیت سکھانی ہوتی ہے تو انھیں مشنری اسکولز میں ڈال دیتے ہیں یا باہر آکسفورڈ وغیرہ پڑھنے بھیج دیتے ہیں۔۔۔ شاید اپنے آپ سے ہر مسلمان بالکل ہی مایوس ہو چکاہے یاشاید اس جانوروں جیسے جینے پر صبرآ گیا ہے۔۔۔ لیکن جب زرداری خاندان کے بلاول زرداری کو جانوروں کی طرح گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریر کرتے دیکھا تو انگریزی طریقہ تعلیم پرسے بھی اعتباراٹھہ گیا۔۔۔۔۔ جان چاہئے جان دینگے سر چاہئے سر دینگے۔۔۔۔۔ یہ شاید آکسفورڈ کا اس سال کا سلیبس تھا۔۔۔۔۔  سائیں ابن زرداری آپکا خالی سر لے کرکیا کرنا ہے۔ سر تو اسکا چاہئے جو آپکے سر میں باتیں بھرتا ہے۔۔۔۔۔
پاکستان کے مشنری اسکول بھی اداکاراور گلو کار ہی پیدا کرسکے۔ جہاں تک تہذیب سکھانے کاتعلق ہے فی الحال تو وہ بھی فیل ہو گئے۔۔۔۔ ہماری بلڈنگ ہی میں ایک فیملی کے پانچ بچے سینٹ جانز میں جاتے رہے ہیں۔ بڑا لڑکا اب بی کام پہلے سال میں ہے۔ عام جاہل مردوں کی طرح سڑک پر فخریہ تھوکتا ہے۔ بچوں کےکوڑا پھینکنے کے آداب بھی باقی قوم سے مختلف نہیں۔۔۔۔۔
ایک بات اس قوم کی بہت اچھی ہے۔ زندہ لوگوں کوکتنی ہی اذیتیں دیں۔ مرنے پر انکا سوگ ضرور منا لیتے ہیں۔۔

سوچا الطاف حسین سے ایم کیو ایم کی سرکاری زبان میں بات کریں۔۔۔ اس زبان کوسرعام کیا ہے ایم کیو ایم کے نائب روحانی پیشوامصطفے کمال اور  ایم کیو ایم اور جیو کی روح رواں بیوی جویریہ اور شوہر سعود نے۔۔۔۔
ویسے کیا خیال ہے۔۔۔ جویریہ اور سعود اپنی بیٹی کو یہ زبان سکھانا پسند کریں گے جو انکی پروڈکشنز میں استعمال کی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر قوم کے بچوں کو کیوں۔۔۔۔ شاید اسی طرح فن, قوم اور پاکستان کی خدمت کی جاتی ہے آجکل۔۔۔ تہذیب واخلاق بیچ کر۔۔۔
ابے الطاف, سن ریا ہے کہ نئیں۔۔۔ ابے لندن میں بیٹھہ کر بولےچلا جا ریا ہے بولےچلا جا ریا ہے بے تکا۔۔۔ ابے یہاں آ کر سب کے سامنے بات کر۔۔۔ مرد بن مرد۔۔۔ابے رشتہ ہے کیا اس زمین سے تیرا۔۔۔ دوسروں کے پاسپورٹ ہاتھہ میں لے کر تصویریں کھنچواتا ہے۔۔۔ پہلے دشمنی کیوں پالی جو اب اپنے آقاؤں کے قدموں میں پناہ لئے بیٹھا ہے۔۔۔ابے یہاں آ کر غور سے لوگوں کی بددعائیں سن۔۔۔ کب تک کراچی والوں سے ان کا روزگار چھینتا رہےگا سوگ کے بہانے۔۔۔ باز آجا باز آجا نئیں تو لوگ وہیں آکر تیری تکہ بوٹی بنائیں گے۔۔۔
کیسا لگا۔۔۔ نہیں اچھا لگا۔۔۔ لیکن کیوں۔۔۔ شکر کریں الو کاپٹھا نہیں کہا۔۔۔ مصطفے کمال کے منہ سے اتنی مرتبہ سنی کہ یہ گالی بھی مقدس لگنےلگی ہے۔۔
سوال یہ ہے کہ ناچنے گانے والوں پر۔۔۔ جن کا دین ایمان پیسہ ہوتا ہے,  جن کے نزدیک فن کی نہ کوئی سرحد ہوتی ہےنہ حد۔۔۔ کس حد تک اعتبار کیا جاسکتا ہے نظام کو بنانے کے لئے۔۔۔ یہ دوسروں کے لکھے ہوئے بول گانے اور دوسروں کے سیٹ کئے ہوئے اسکرپٹ پڑھنے کے عادی لوگ, دوسروں کے اشاروں پر رونے اور ہنسنے اوردوسروں کی تعریفوں کے محتاج لوگ۔۔۔ یہ بھلا قوم کو کیا سوچ دے سکتے ہیں۔۔۔ سوائے کہ عام  لوگوں کو اپنے فیشن, میک اپ, اداؤں, بے تکی باتوں, تیس کے بعد تین سال کے بچوں والی حرکتوں میں الجھا کر رکھیں۔۔۔
ان ذہنی مریضوں سے کوئی بھی سیاسی پارٹی کیا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔۔۔ شاید فنڈ ریزنگ۔۔۔ بس۔۔۔
ویسے بھی ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو یا تو تعلیم میں ناکام رہے یا تعلیم یافتہ بننے کا شوق نہیں ہوتا۔۔۔
اگر وحید مراد صاحب جیسے کامیاب لوگ بھی اس حسرت میں مر جائیں کہ ان کی ایم اے کی ڈگری کام نہ آسکی ۔۔۔ اگر معین اختر صاحب جیسی شخصیت یہ پوچھتی مرجائے کہ ہم کس قسم کے لوگ ہیں اور ہم نے کیا کیا۔۔۔ اگر مہدی حسن خان جیسا فنکار اپنی آخری عمر میں اپنے ہی فیلڈ کے لوگوں کی عیادت نہ پا سکیں۔۔۔ اگر محمدعلی صاحب جیسا سخی, نرم دل اور کامیاب انسان اپنی زندگی کے آخری سال اپنے محل کی قید میں اداس گزاردے تو لعنت ہے ایسی فیلڈ پر۔۔۔
لوگ کہتے رہے کہ پڑھےلکھے لوگ اداکاری گلو کاری میں آئیں گے تو فن ترقی کرے گا۔۔۔
نتیجہ یہ نکلا کہ اسکول کالج کے طلبہ وطالبات کی اصل فیلڈز سے توجہ ہٹ گئی۔۔۔ اورجو آئے ڈگریاں لے کر وہ بھی بندر کی طرح اس ڈگڈگی پر ناچنے لگے جس پر غیر پڑھےلکھے اداکار گلو کارناچتے رہے۔۔۔ اور آوازیں آئیں کہ بھئی مسئلہ یہ ہے کہ باشعور ہدایتکار اور لکھنے والے موجود نہیں۔۔۔
اور اصل مسئلہ ہے بھی یہی۔۔۔ لوگ بندر بن کر تماشہ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں لیکن کوئی ڈگڈگی بجانے والا نہیں بننا چاہتا۔۔۔
ہالی ووڈ کی فلمز دیکھہ کر بے وقوف انسان بھی اندازہ لگا سکتاہے کہ ہدایتکار پڑھا لکھا ہو تو کتے بلی اور بندروں تک سے اداکاری کروالیتا ہے۔۔۔ گلوکاری کے لئے ریاض کی ضرورت ہوتی ہے ڈگری کی نہیں۔۔۔ میڈم نورجہاں, ریشماں, نصیبو لال, علن فقیر ثبوت ہیں۔۔۔
مارننگ شو کی میزبانی  اور نئے نئے کپڑے پہن کرلہرانا, ادائیں دکھانا یعنی ماڈلنگ ۔۔۔ گھروں میں کام کرنے والی ماسی بھی کر سکتی ہے۔۔۔ ایسی بے تکی باتوں کے لئے میڈیکل کی سیٹ یاچودہ سالہ ڈگری ضایع کرنے کی کیا ضرورت ۔۔۔
اور تو اور چار پانچ گنے چنے گھسے پٹے شو بز کے لوگوں کو ایوارڈز بھی مل رہے ہوتے ہیں۔۔۔ بقول حمیرا ارشد کون دے رہا ہے کیوں دے رہا ہے ایوارڈز۔۔۔۔۔۔

بی اے سال اول آرٹس گروپ کے امتحان ڈیڑھ سال کے وقفے کے بعد شروع ہوئے  یعنی دو ہزار دس میں ہونے والے امتحانات  جنوری دو ہزار گیارہ میں ہوئے اور پرسوں ختم ہوگئے۔۔۔ گروپ کوئی بھی ہو, پانچ پرچے ہوتے ہیں یعنی پانچ مضامین, جسکی تیاری کے لئے تین سو پینسٹھہ دن کے علاوہ بھی چار چھہ مہینے زیادہ ہی دیے جاتے ہیں۔۔۔ سلیبس زیادہ نہیں ہے۔۔۔ سالوں پرانی کتابیں اور اس میں غیر دلچسپ اور غیر معیاری موضوعات اور اسباق۔۔۔ رٹا لگا نا ہو تو ایک مہینے میں تیاری ہو سکتی ہے۔۔۔ پھر پرچوں کے دوران پانچ دس دن کی چھٹی۔۔۔
پرسوں آخری پرچہ سیاسیات یا پولٹکل سائنس کا تھا۔۔۔ بہت کم لڑکیاں تھیں۔۔۔ کچھہ لڑکیاں دو گھنٹے بعد ہی نکل آئیں کچھہ چالیس منٹ پہلے۔۔۔ باہر آکر انھوں نے بتایا کہ پرچہ بڑا آسان تھا فورا کرلیا۔۔۔ بعد میں میری بیٹی نے بتایا کہ جو لڑکیاں بہت پہلے باہر آجاتی ہیں انکے پاس سے پھرے نکلتے ہیں۔۔۔ کسی کے اسکارف میں سے, کسی کے بالوں میں سے, کسی کے جوتوں سے, حتی کہ انڈرگارمنٹس میں سے پرچے نکلے, کسی نے ایڈمٹ کارڈ کے پیچھے لکھا ہوتاہے۔۔۔ مجھے یہ سمجھہ نہیں آئی کہ انھوں نے پچھلے پانچ سو پچاس دنوں کیا کیا۔۔۔ ایک مضون کے لئے اوسط ایک سو دس دن ملے۔۔۔ یعنی سوا تین مہینے۔۔۔ ہر ہفتے ایک سوال یاد کریں تب بھی پندرہ بیس سوال تو یاد ہو ہی سکتے ہیں۔۔۔ وہی لوٹ پھیر کر ہرسال آتے ہیں۔۔۔
خیر میرے نزدیک ہی تین لڑکیاں کوئی چالیس منٹ پہلے باہر آکربیٹھہ گئیں۔۔۔ ان میں سے ایک نے شکایت کی کہ ۔۔۔ لڑکیاں دوران امتحان کچھہ بتاتی نہیں, میں نے تو پیچھے حافظاؤں کے گروپ کو خوب سنائیں کہ آپ خود تو گروپ بنا کر ایکدوسرے کی مدد کر رہی ہو اور ہمیں کہہ رہی ہو کہ نقل بری بات ہے۔۔۔ اور ٹیچرز سے پوچھو تو کہہ دیتی ہیں ہمیں نہیں پتہ۔۔۔
باقی دونوں نے کہا کہ ہم جاب کرتے ہیں۔۔۔ ایک تو پرھنے کاموقع نہیں ملتا دوسرے تیاری کیسے کریں,  پھر امتحان والے دن کی چھٹی لینا۔۔۔
میں نے تھوڑی دیر ان کی باتیں سنیں پھر دخل اندازی کی۔۔۔ ان سے کہا کہ آپکے جوبھی مسائل ہیں اسکا مطلب یہ نہیں کہ آپکو امتحان والے دن نقل کی اجازت دے دی جائے, آپکے پاس سال بھر سے زیادہ ہوتا ہےتیاری کے لئے۔۔۔ رہا ٹیچرز کا نہ بتانا تو وہ نہیں بتاسکتیں کیونکہ انھیں کچھہ پتہ نہیں ہوتا اور اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اساتذہ اپنے سبجیکٹس کے علاوہ کچھہ اور نہیں پڑھتے۔۔۔ اگر سائنس گروپ کے تھے تو انھیں آرٹس کا کیا پتہ۔۔۔ آرٹس گروپ کے مضامین میں سیاسیات, معاشیات, ایجوکیشن, نفسیات, عمرانیات وغیرہ شامل ہیں۔۔۔ یہ سارے مضامین دلچسپ بھی ہیں اور معاشرے کی بہتری کے لئے ضروری بھی۔۔۔ ان پر توخاص توجہ دینی چاہئے۔۔۔
میری باتیں سن کر وہ لڑکیاں وہاں سے اٹھہ کرچلی گئیں۔۔۔ لیکن میں یہ سوچ رہی ہوں کہ وہ کچھہ زیادہ غلط بھی نہیں تھیں۔۔۔
ہمارے ہاں اسکول کالجز کا رخ اوسط طبقے کے لوگ کرتے ہیں  جنکی زندگی مسائل سے بھری پڑی ہے۔۔۔ باقی دو طبقات کو نہ تعلیم سے دلچسپی نہ مسائل سے۔۔۔ اوسط گھرانوں کی لڑکیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے شادی۔۔۔ اسی سوچ کے ساتھہ وہ بڑی ہوتی ہیں۔۔۔ میٹرک سے بھی پہلے انکے رشتوں کی تلا ش شروع ہوجاتی ہے۔۔۔ جب تک شادی نہ ہو پڑھتی رہتی ہیں۔۔۔ اگروالد کا انتقال ہو جائے, بھائی نکمے نکلیں, یا حالات خراب ہوں تو جاب شروع کردیتی ہیں پھر جاب کے مسئلے الگ۔۔۔ اگر ہمارے ہاں میٹرک کی تعلیم بھی معیاری ہو تو بات بن جائے۔۔۔ پھر گھروں کا ماحول, گھریلو خواتین کے موضوعات, کچھہ بھی تو علمی نہیں ہے۔۔۔
آئے دن کی تقریبات, مہمانداری, دوستانے, رسم وروایات,غیرملکی چینلز, انٹرنیٹ اور موبائل فونز کا غلط استعمال۔۔۔
جب تک خود کو ان چیزوں سے آزاد نہیں کریں گے کیسے وقت ملے گا صحیح کاموں کے لئے۔۔۔

جب عورتوں پرتیزاب ڈال کران کے چہرے مسخ کئے جاتے ہیں۔۔۔ تیل چھڑک کر آگ لگا دی جاتی ہے۔۔۔ ہاتھہ پیر توڑے جاتے ہیں۔۔۔ تب وہ بھی درد سے تکلیف سے چیختی چلاتی ہوں گی۔۔۔ دس گیارہ سال پہلے جاوید اقبال نامی شخص جب زنجیر سے بچوں کا گلا گھونٹتا ہوگا تو وہ بھی درد کی شدت سے چلاتے ہوں گے۔۔۔ مقبوضہ کشمیر میں جب زندہ لوگوں کی کھال پاکستان زندہ باد کہنے پراتاری جاتی ہو گی تو ان کے چیخنے چلانے کا کیا حال ہوتا ہو گا۔۔۔
 
کیا یہ سب بھی مبالغہ ہے۔۔۔
بات یہ ہے کہ کوئی ظالم اگر دشمنی پر اتر آئے تو اسکے انسان یامسلمان ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ ظالم کانام فرعون ہو نمرود ہو یا یزید۔۔۔ کربلا پچھلے ڈیرھ ہزار سالوں میں عام مسلمانوں کی بے حسی کی گواہی دیتی اور بے غیرتی پر ماتم کرتی ہوئی ہر سنی شیعہ ممالک کے گلی محلوں میں پہنچ چکی ہے۔۔۔ اور یہ مبالغہ بھی نہیں۔۔۔
اس وقت کے عام مسلمانوں نے بھی روٹی کپڑامکان پر اپنے حاکموں اور امراء سے سمجھوتہ کرلیا ہوگا۔۔۔ کچھہ کے ذہنوں میں بٹھایا گیا ہوگا کہ تم عام ہو تو کیا۔۔۔ کسی قابل نہیں تو کیا۔۔۔ پھر بھی ایوانوں تک پہنچ سکتے ہو۔۔۔  اس وقت کی حکومت کے شیطانی چیلوں نے بھی یہ آواز لگائی ہو گی کہ حسین اتنے بھی معصوم نہیں تھے۔۔۔ اگر اس وقت کے عام مسلمانوں نے , اختیارات کے حصول اور تماشہ بازیوں سے ہٹ کے کربلا کا حساب کتاب مانگ لیا ہوتا۔۔۔ تو عام مسلمانوں پر اتنے تسلسل کے ساتھہ مسلمان حکمرانوں ہی کے ہاتھوں ظلم نہ ہوئے ہوتے۔۔۔ شاید ہم فرقوں کے بجائے ایک قوت ہوتے۔۔۔ ہزار ہزار سال کی حکمرانیوں کے بعد ہم اتنے ذلیل و رسوا نہ ہو رہے ہوتے۔۔۔  دوسری قوموں  کو تو کیادیتے اپنے ہی گھروں اورمحلوں کو کوئی نظام نہ دے سکے۔۔۔
 
اس وقت اس ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی۔۔۔ اور عام مسلمانوں میں یہ روایت آج تک برقرار ہے۔۔۔ چودہ سو سال پہلے کے واقعات کو ایک تاریخی واقعہ سمجھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ الله نے عام مسلمانوں کے دل ایکدوسرے کے لئے سخت کردئے۔۔۔  بے بس مرد وعورت گدھے کی طرح دن رات ایک کر کےاپنے گھر والوں کے لئے روٹی کپڑا اور مکان جمع کررہے ہیں یا باختیارمرد وعورت گدھ کی طرح دوسروں کا حق چھین کر اپنے خاندان کو یہ سہولتیں دے رہے ہیں۔۔۔ یا لومڑ اور لومڑیوں کی طرح اپنے ہی گھر والوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں کہ انھیں کس طرح نیچا دکھائیں اور کس طرح لوٹیں۔۔۔ بے بس بچے جانوروں کی طرح استعمال ہو رہے ہیں سڑکوں پر یاپھر گدھوں کی طرح پتہ نہیں کون سے مستقبل اور ترقی کے لئے کمر پر کتابوں کابوجھہ لادے پھرتے ہیں۔۔۔ اور ہم ان مظالم پر شرمندہ بھی  نہیں ہوتے روتے بھی نہیں۔۔۔ تو پھر  کربلا سےتو چودہ سو سال کے فاصلے پر آگئے ہیں انکا درد کیا محسوس کریں گے۔۔۔
 
شاید اسی لئے یہودیوں نے ہمیں جینٹائلز کہہ دیا یعنی انسان نما حیوان۔۔۔ شاید خدا ان سے قیامت کے دن پوچھے کہ تم نے سیدالبشر کے ماننے والوں کو یہ لقب کیوں دیا۔۔۔ ڈر مجھے یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ ہیں بہت اچھی طرح اپنا دفاع کرلیں گے۔۔۔

اردو نوٹس بیچلرز کے لئے۔۔۔ بیچلرز انگریزی کا لفظ ہے جسکا مطلب ہے کنوارا۔۔۔ اسکو چودھویں سال کی ڈگری کا نام کیوں دیاگیا اور پاکستان میں اسکا مقصد سمجھہ نہیں آتا۔۔۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ کچھ لیولز ہونے چاہئیں انکا کوئی بھی نام رکھا جائے, کوئی بھی کسی بھی عمر میں جو لیول پاس کرے اسکو وہ ڈگری دے دیں۔۔۔
کیونکہ تعلیمی عمل کو چودہ سال تک کھینچنے کے لئے خواہ مخواہ کا سلیبس بنایا جاتاہے,  کون کتابیں لکھ رہا ہے, کیا لکھہ رہا ہے, کون سے اسباق ہیں اور انکا موضوع کیا ہے… کچھہ چیزیں پہلی کلاس سےایم اے تک پڑھائی جاتی ہیں مگر پھر بھی طالبعلم نہ انھیں سمجھتے ہیں نہ ان پر بحث کر سکتے ہیں… مثلا تاریخ پاکستان, نظریہ پاکستان, اردو ادب, انگلش لٹریچر۔۔۔
ہر نئی نسل نئی حکومت کی طرح برے نظام کی وجہ اپنے سے پہلوں کی غفلت کو قرار دیتی ہے۔۔۔  لیکن نئی نسل یہ بھول جاتی ہے کہ پچھلی نسل کی غفلت کی وجہ نئی نسل ہی ہوتی ہے۔۔۔ ہر نسل کے لوگ جب اپنی اولادوں کے لئے خود غرض ہو جائیں, دوسروں کاحق ماریں, جھوٹے دستاویزات بنوائیں, رشوت لیں, رشوت دیں۔۔۔ تواگلی نسل کو جینے کے لئے صرف ایک  جرائم پیشہ معاشرہ ہی ملتا ہے جسکے حصہ دار خود انکے گھر اور خاندان کے لوگ ہوتے ہیں۔۔۔
ویسے بیچلرز کی ڈگری کا مقصد کیا ہوتا ہے۔۔۔ پہلی جماعت سے بیچلرز تک چودہ سال اور مونٹیسوری سے سولہ سال بنتے ہیں۔۔۔ اور بیچلرز کی ڈگری لینے والے کی عمر انیس بیس اکیس سال کی تو  ضرورہو گی۔۔۔ تو ایک انسان کے پچے یا بچی کو سولہ یاچودہ سال کے مسلسل تعلیمی عمل کے بعد کس قابل ہو جانا چاہئے۔۔۔ کس حد سمجھدار اور باشعور ہو جانا چاہئے۔۔۔  کس قسم کی باتیں اسے سمجھہ آجانی چاہئیں۔۔۔ کس حد تک فیصلے کرنے اور انھیں نبھانے کی اہلیت ہونی چاہئیے۔۔۔ مذہبی, سیاسی, قانونی اورسماجی مسائل کی کس حد تک سمجھہ ہونی چاہئے اور انکو حل کرنے میں کیا کردار ہونا چاہئے۔۔۔۔ کس مضمون پر کتنا عبورہونا چاہئے۔۔۔ کیا مضامین کی کومبینیشن آج کل کے حساب سے ہے۔۔۔۔ کیا بیچلرز کی ڈگری طلبہ وطالبات کو موجودہ دور اور حالات کے حساب سے ملازمتوں یا کاروبار کے لئے تیار کرتی ہے یا اسکا مقصد یہ ہوتا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔ اگر ملازمت یا کاروبار کے لئے تیاری نہیں تو پھر چودہ یا سولہ سال سات آٹھہ گھنٹے گھر سے باہر گذارنے کا کیا مقصد ہے۔۔۔
ہمارے بچے ساتویں نہیں تو آٹھویں جماعت سے تو ضرورعشق ورومانس کی باتیں سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔ اور بہت اچھی طرح والدین, ٹیچرز, محلے والوں کو چکر بھی دے دیتے ہیں۔۔۔اسکے لئے انھیں کسی ٹریننگ یا استاد کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔۔ اور اس طرح پانچ چھہ سال میں اس فیلڈ کی اونچ نیچ کو خوب سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔ لیکن باقی معاملات کے معاملے میں نہ صرف وہ بچے بنے رہتے ہیں بلکہ ایک حد تک خود کو احمق, بے وقوف اور ناکارہ بھی ظاہر کرتے ہیں۔۔۔ اکثر والدین, رشتہ دار یا دوست وغیرہ بھی انھیں اسی قسم کی خصوصیات کا احساس دلادلا کر معصوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔
 چودہ یاسولہ سال زندگی کا ایک بہت بڑا اوراہم حصہ ہوتے ہیں۔۔۔ اتنےعرصے تو جانوروں کو ٹریننگ دی جائے تو وہ بھی قابل توجہ کام سر انجام دینے لگتے ہیں۔۔۔ بلکہ وہ کام اس حد تک ان جانوروں کی فطرت کا حصہ بن جاتے ہیں کہ انھیں جنگل میں چھوڑ دیا جائے تو ان کی کمیونٹی انھیں قبول نہیں کرتی۔۔۔ اور نہ ہی وہ خود جنگل کے ماحول میں ایڈجسٹ ہو پاتے ہیں۔۔۔ ساتھہ ساتھہ ایسے جانور اپنے مالک کےلئے کمائی کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔۔۔ اپنے مالک کے ایک اشارے یا منہ سے نکلنے والے ایک لفظ سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔۔۔
اب ذرا بیچلرز ڈگری کے خواہشمند یا وہ جو یہ ڈگری حاصل  کر چکے ہیں اپنا موازنہ ان جانوروں سے کریں, اس میں سرکس کے جانور بھی شامل ہیں۔۔۔ کہ کیا سیکھا اور کیاکرنے کے قابل ہیں۔۔۔
اردو زبان کے اصل مجرم کون ہیں۔۔۔ وہ جو خود تو بڑے اردو ادب کے ستون کہلائے مگر اپنی اولادوں کوانگریزوں کا پرستار چھوڑ گئے۔۔۔ وہ جنھوں نےقوم کو یہ سوچ دی کہ اردو زبان میں عشق ومحبت کے قصے سنائے جاسکتے ہیں, انتقام و نفرت و سازشوں سے  بھر پور اسکرپٹس لکھے جا سکتے ہیں, فتووں سے بھری کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔۔۔ لیکن ملک وقوم کی کی ترقی کا کام نہیں کیا جاسکتا۔۔۔ یا وہ جو اپنی اولادوں کو باہر کی یونیورسیٹیز میں پڑھاتے ہیں مگرقوم کو اردو کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔۔۔ یا خود ساری عوام جو نہ بولنے کو تیار, نہ سننے کو, نہ کچہ کرنے کو۔۔۔
ہمیں کیوں اپنے اس جرم کا احساس نہیں ہوتا کہ ہرایرے غیرے کو اسکول کھولنے کی اجازت دے کر, ہر قسم کا سلیبس باہر سے درآمد کر کے, اپنے میں سے ہی اٹھے ہوئے مجرمانہ ذہنیت کے استادوں استانیوں کو تعلیمی اداروں کوبرباد کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کرکے ہم نے اپنے ہی بچوں کا مستقبل تباہ کیا۔۔۔
بیچلرز کے لیول کے لئے کورس کی کتابیں ضروری ہیں یا کالجز اور یونیورسٹیز میں ایک تفصیلی سلیبس دے کر طلبہ سے تحقیقی کام کروانا۔۔۔ جبکہ ایک طرف حال یہ ہے کہ تیسری چوتھی پانچویں جماعت کے بچوں کو اردو میں نظم, شعر, مضمون, کہانیاں لکھنے کو دی جاتی ہیں۔۔۔ ضروردیں لیکن اسکے لئے انھیں پڑھنے کا وقت, تیاری کا وقت دیں نہ کہ بچے ٹیوشن یا بڑوں سے چیزیں لکھوا کر نمبر حاصل کریں۔۔۔
سیاق و سباق کے ساتھہ تشریح کریں, کسی ایک شاعر, ادیب, افسانہ نگار کے حالات زندگی لکھیں یا فن پر تبصرہ کریں, کسی نظم یا سبق پر تبصرہ کریں یا خلاصہ لکھیں۔۔ سروے کرکے دیکھہ لیں کہ یہ کتنا بڑا بوجھہ ہے طلبہ پر۔۔۔ اور جب بوجھہ ہلکا کرنے کے لئے والدین, اساتذہ ہی راستے فراہم کردیں توپھرجہالت کا شکوہ حکومت سے کرنا بےکارہے۔۔۔۔
ایک بات یہ بھی ہے کہ نثر میں جو اقتباسات اور شاعری کے جو حصے منتخب کئے گئے ہیں وہ کس بناء پر۔۔۔  کتاب کے آخر میں مشکل الفاظ کے معنی بھی دے دیا کریں کیونکہ سو دو سو سال پرانی اردو تو اب بولی نہیں جاتی۔۔۔ بلکہ اب تو لب ولہجہ بھی پاکستانی نہیں رہا۔۔۔ کم از کم کراچی میں تو ہندوستانی فلموں کا لہجہ اور الفاظ  نئی نسل کی شخصیت کا حصہ ہیں۔۔۔ بلکہ کافی ساری ٹیچرز اور اسکول اونرز بھی اسی تلفظ میں بات کرتی ہیں۔۔۔
کیا پاکستان میں پہلی جماعت یا مونٹیسوری سے بیچلرز تک مضامین, خاص طور پر اردو اور اسلامیات میں کوئی سیکوینس یادرجہ بندی ہے۔۔۔ کہ کس عمر یا جماعت کے بچوں میں کم از کم اتنی پڑھنے یا لکھنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔۔

میرے یہ کہنے میں کوئی جھوٹ نہیں کے پاکستان کے سیاست دان، انکے پلّے یعنی لیڈرز، انکے دہشت گرد یعنی کارکنان، پاکستان کے ٩٩ فیصد شوبز کے لوگ، گلوکار، اداکار، مسخرے، وغیرہ، پاکستان کے لیڈنگ چینلز… سب کے سب ایک دوسرے کے ہاتھہ میں ہاتھہ ڈال کر… آپس میں نورا ڈرامے تخلیق کر کر کے… پاکستان کو ٢٣ مارچ، ١٩٤٠ والے ہندو – برٹش راج کے اندر رکھنا چاہتے ہیں… ڈرا ڈرا کر، خوف دلا دلا کر، غیرت، ہی اور خوداری بیچنے کی ترکیبیں بتا بتا کر… جویریہ جلیل اور سعود کی گالیوں اور بد تہذیبی سے بھرپورڈرامے، جن سے وہ اپنی بیٹی کے لئے عیش و عشرت کا سامان خریدتے ہیں… جویریہ تو ویسے ہی لگتا ہے مندر میں پیدا ہوئی تھی پتہ نہیں کون منحوس پاکستان چھوڑ گیا… جیو ٹی وی کا مسلسل بھارت کے گن گانا… کوئی با غیرت، با کردار، تعلیمی سوچ، خوداری کا پیغام، تہذیب اور تمدّن والی چیز نہیں… تہذیب کے معاملے میں تو ایک ہی نام مشھور ہے اور وہ ہے خوشبخت شجاعت کا… لیکن وہ بھی جوانی کی شہرت بڑھاپے میں کیش کرا رہی ہیں اسمبلی میں گونگی بہری بن کر… ظاہر ہے اپنی اولاد کے کام آرہی ہوگی… قوم کے معاملے میں تو وہ اپنے بھابی نما بھائی الطاف یزید کے احکامات کی پابند ہونگی… اسکول چلاتی ہیں، اتنی توفیق نہیں کہ پاکستانی سلیبس بنا لیں… خوب سارے پرائیویٹ اسکولوں میں آکسفورڈ اور دوسرے برٹش مصنفوں کی کتابیں بک رہی ہیں… ظاہر ہے حکومت برطانیہ سے معاہدہ ہوا ہوگا کہ بچوں کے ذہن ہمارے، اور کراچی پر حکومت تمہاری… آخر غریب و مسکین ایم کیو ایم پارٹی کا خرچہ کہاں سے پورا ہوگا… وہ مستعفی کمال کا کیس بھی نکلا تھا نہ کہ اسکے حکم سے حکومت کے اسکولوں میں جنسی کتابیں مفت بانٹیں گئیں… پتہ نہیں ایم کیو ایم والے اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کو یہ کتابیں پڑھاتے ہیں کہ نہیں… یا انکو بھی باقی قوم کی طرح گدھا بنایا ہوا ہے… 
.
لیکن یہ تماشا بھی خدا دیکھ رہا ہے… خدا اس قوم کو قومی اور اسلامی غیرت عطا فرماۓ، آمین! 
.
پاکستانیوں کو چاہیے کہ پاکستانی چینلز دیکھنا بند کریں تاکہ ایمان، غیرت اور حب الوطنی بچا سکیں… وہی وقت اپنی تعلیم پر لگائیں، کتابیں پڑھیں، خود کو بہتر کریں تاکہ دنیا میں کچھ عزت تو ملے…
 

No comments:

Post a Comment