Thursday, 19 February 2015

(•۝• ѴƲ cℓʋв •۝•) ہے کوئی جواب

ہے کوئی جواب؟
0
Hai koi jawab
۲؍جون 1924ء کو چکوال کے ایک گائوں میانی، تحصیل کلرکہار میںایک ہندو پنڈت کے گھرانے میں ایک بچہ بڑے جتن اور دعائوں سے پیدا ہوا۔ اس کے پیدا ہونے سے پورے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس سے قبل گھرانے میں کوئی بچہ موجود نہیں تھا۔ ایک پنڈت کی ہدایت پر بچے کا نام کرشن لال رکھا گیا تا کہ وہ ہری کرشن مہاراج (جو اپنے وقت کے اوتار تھے) کی طرح طبعی عمر پائے اور اس کے نقش قدم پر چلے۔
بچہ جب چودہ برس کا تھا، تو حضور اکرمﷺ نے عالم رُئویا میں اس بچے کو مشرف بہ اسلام فرمایا۔ چناںچہ بچہ غازی احمد کے نام سے مشہور ہوا۔ انھوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد بے شمار تکلیفیں اور اذیتیں برداشت کیں۔ وہ ثابت قدمی کا ثبوت دیتے ہوئے دینی اور دنیاوی تعلیمات حاصل کرتے رہے اور گورنمنٹ کالج بوچھال کلاں کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔
آپ نے تین ایم اے اور وہ بھی گولڈ میڈل کے ساتھ کیے۔ اس کے علاوہ درس نظامی، فاضل فارسی، ایم۔او۔ایل، بی ایڈ اور ایل ایل بی کی ڈگریاں اعزازات کے ساتھ حاصل کیں۔ انھوں نے اپنے قبول اسلام کی داستان ایک کتاب ''من الظلمات الی النور) (کفر کے اندھیروں سے نورِ اسلام تک) کے نام سے تحریر کی جس کے کئی زبانوں میں ترجمے ہوچکے۔ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ میں نے ان سے دو مرتبہ ملاقات کی۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کی درج بالا کتاب کے حوالے سے ضبط قلم کر رہا ہوں۔
٭٭
آج سے کئی سال قبل پنجاب یونیورسٹی لاہور نے بی۔اے کے امتحانات کے سلسلے میں مجھے تعلیم الاسلام کالج، ربوہ میں ناظم امتحانات مقرر کر دیا۔ بیس پچیس دن ربوہ کالج میں میرا قیام رہا۔ ایک اتوار چھٹی کے دن میں نے قادیانی جماعت کے امیر، مرزا ناصر احمد سے ملاقات کا پروگرام بنایا۔میں دفتر گیا اور ملاقاتیوں کی فہرست میں اپنا نام درج کرایا۔
میرا تیسواں نمبر تھا۔ میں نے ناظم ملاقات سے کہا، اگر ممکن ہو تو جلد ملاقات کرا دیں، مجھے امتحان کے سلسلے میں کام کرنا ہے۔ انھوں نے میرے متعلق مرزا صاحب کو فون پر بتایا۔ ناصر صاحب نے کہا کہ ان کا نام دوسرے نمبر پر درج کر دیں۔ پہلے نمبر پر ڈاکٹر عبدالسلام تھے۔ پہلی ملاقات شروع ہوئی، تودونوں حضرات نصف گھنٹے تک محو گفتگو رہے۔
ڈاکٹر صاحب کے بعد میری باری آئی۔ ناصر صاحب دوسری منزل پر فروکش تھے۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا۔ ناصر صاحب نے دروازے میں آ کر استقبال کیا۔ علیک سلیک کے بعد گفتگو کا آغازہوا۔ ناصر صاحب نے کہا ''مجھے پتا چلا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے عالم رُئویا میں آپ کو اسلام سے مشرف فرمایا۔'' ''جی ہاں! آپ کی معلومات بالکل درست ہیں۔ میںنے خواب میں نبی کریمﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔'' میں نے جواب دیا۔ ناصر صاحب نے مسرت کا اظہار فرمایا اور کہا ''واقعی آپ بڑے خوش قسمت انسان ہیں۔ میں کہوں گا کہ آپ تو اسلام کی صداقت کی دلیل ہیں۔'' وہ پھر میرے قبولِ اسلام کی تفصیلات دریافت کرتے رہے اور میں جواب دیتا رہا۔
تقریباً نصف گھنٹا اسی گفتگو میں گزر گیا۔ میں نے کہا کہ جناب کافی وقت گزر گیا، نیچے بہت سے ملاقاتی آپ کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ میں رخصت چاہتا ہوں۔ البتہ اگرآپ مناسب خیال کریںاور گستاخی نہ سمجھیں تو طالب علم کی حیثیت سے ایک سوال دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ ناصر صاحب نے خوش دلی سے اجازت دے دی۔
میں گویا ہوا ''جناب کو بھی معلوم ہے، نبی کریمﷺ نے مجھے مشرف بہ اسلام فرمایا اور بہ مصداق حدیث (جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا) میرا ایمان ہے، میں نے جناب رسول کریمﷺ کی ذاتِ گرامی ہی سے دین اخذ کیا۔ میرا یہ بھی ایمان ہے کہ جو عقیدہ اور مسلک میںنے اپنایا وہ آنحضرتﷺ کی رضائے عالیہ کے مطابق ہے۔
''آپ حضرات بھی سلسلہ نبوت رکھتے ہیں۔ اگر آپ کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں درست ہوتا تو نبی کریمﷺ مجھے اسلام سے مشرف فرمانے کے بعد ہدایت فرما دیتے کہ اب تم مسلمان توہو چکے، تکمیل دین کے لیے قادیان چلے جائو۔  ''بحیثیت نبی آپﷺ کے لیے ضروری تھا کہ مرزا صاحب کی نبوت کو نظر انداز نہ فرماتے۔ مگر حضور اکرمﷺ نے مرزا صاحب کی نبوت کو قطعاً نظر انداز فرمایا۔ اس کے معنی ہیں کہ مرزا غلام احمد کا سلسلہ نبوت عنداللہ و عندرسولﷺ درست نہیں بلکہ یہ، نبوتِ کا ذبہ کے زمرے میں آتا ہے۔''
جناب ناصر صاحب نے سوال سن کر فرمایا ''یہ سوال میری زندگی میں پہلی بار پیش کیا گیا۔ آپ کے سوال کی معقولیت میں شک نہیں مگر ملاقاتی کافی بیٹھے ہیں۔ پھر کسی ملاقات میں اس کا جواب دوں گا۔'' میں نے عرض کیا کہ مجھے ایک بات اور دریافت کرنا ہے۔ میں نے مرزا صاحب کی ایک تحریر پڑھی ہے،اس میں وہ لکھتے ہیں: ''میں اور میری جماعت کے افراد فقہی مسلک میں امام ابو حنیفہؒ کے پیروکار ہیں۔ ناصر صاحب میں بھی حنفی مسلک سے تعلق رکھتا ہوں۔''
یہ سن کر ناصر صاحب نے اظہارِ مسرت فرمایا۔ میں نے مزید عرض ''آپ سبھی سمجھتے ہیں کہ مرز غلام احمد منصب نبوت پر فائز تھے۔ لیکن تب کیا یہ امر منصب نبوت کے شایانِ شان ہے کہ ایک نبی امتی کے فقہی مسلک کا پیروکار اور مقلد ہو جائے؟ کیا یہ مقام نبوت کی توہین نہیں؟'' ناصر صاحب نے فرمایا ''اس سوال کاجواب بھی کسی دوسری مجلس میں تفصیل کے ساتھ دوں گا۔ آپ اپنا پتا میری سیکرٹری کو دے دیں۔ آپ کو دونوں سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔''
میں نے پھرناصر صاحب سے اجازت طلب کی۔ انھوں نے خندہ پیشانی سے مجھے رخصت کیا۔ لیکن جب میں سیڑھیاں اتررہا تھا تو ختم نبوت پر میرے ایمان و ایقان میں اضافہ ہوتا چکا تھا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ واقعی حضرت محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپﷺ کا لایا ہوا دین کامل، مکمل اور اکمل ہے۔ اب کسی نئے تکمیل کنندہ کی قطعاً نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ گنجائش۔ آپﷺ کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا، تو اس کی نبوت کا ذبہ ہو گی۔ میرے سوالات کے جوابات آج تک قادیانی فرقے کا کوئی خلیفہ اور عہدیدار نہیں دے سکا۔''
٭٭٭
یہ یاد رہے کہ پروفیسر غازی احمد ۲۵؍اگست ۲۰۱۰ء کو اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔انھوں نے تقریباً چالیس سال قبل مرزا ناصر سے ملاقات کی تھی جو خود بھی عالم بالا پہنچ چکے۔مگر اس دوران کوئی قادیانی غازی صاحب مرحوم کے سوالوں کا جواب نہیں دے سکا۔
 

--
--
-------------------------------------------------------------
"VU CLUB" | Learning and Entertainment |
-------------------------------------------------------------
 
For study material join VU Club at:
http://vuclub.net & http://vuforum.net
 
To post to this group, send email to:
vu-club@googlegroups.com
 
For more options, visit this group at
http://groups.google.com/group/vu-club?hl=en?hl=en
 
Join us on Facebook:
http://www.facebook.com/#!/groups/190713217644560/
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "VU CLUB" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to vu-club+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/d/optout.

No comments:

Post a Comment