Friday, 21 December 2012

(•۝• ѴƲ cℓʋв •۝•) یوں علم کی شمع گل ہوئی

یوں علم کی شمع گل ہوئی
سارہ خالد…
پاکستان کے نظام تعلیم کی، قبر میں پیر لٹکائے سفید بالوں والے بڈھے بابے جیسی حالت دیکھ کر اتنے آنسو بہالیے کہ آنکھیں پتھر جیسی ہوگئیں۔ نئی نسل پڑھائی کے نام سے یوں حواس باختہ ہوتی ہے گویا کتابیں نہیں بلکہ سرکٹا انسان دیکھ لیا ہو۔ اساتذہ کی ایک مخصوص تعداد نے بھی اس کارِ خیر میں حصہ ڈال کر تدریس کے شعبے کو بڑی خوبی سے بدنامی کی بلندیوں اور تباہی کی چوٹیوں تک پہنچانے کا کام سرانجام دے دیا ہے۔ علم کے عاشق اور علم کے ترازو میں قوموں کی حیثیت کو پرکھنے سمجھنے والے لوگ بے بسی کے عالم میں ہاتھوں میں سر دیئے بیٹھے ہیں کہ ایسی قوم کا مستقبل کیا ہوگا جو بڑی بے فکری سے آپ اپنے مستقبل سے کھیل رہی ہے۔ آئیے ذرا درس گاہوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
……٭٭٭……
''اُف یہ بڑے میاں کب جائیں گے؟ 2گھنٹوں سے دماغ پکا رہے ہیں۔ دماغ میں خشکی ہوگئی ہے۔'' احمد نے سر عرفان سے نظر بچاکے تیزی سے نوٹ پیڈ پر یہ سطر گھسیٹی اور نوٹ پیڈ برابر میں بیٹھے ہوئے سبحان کی جانب کھسکادی۔
''اوئے بیوقوف! ان کا لیکچر سنو گے تو دماغ میں خشکی ہی نہیں معدے میں بدہضمی بھی ہوجائے گی۔ اِدھر دیکھو ذرا میرے ہاتھوں کی طرف۔'' سبحان نے لمحوں میں جواب تحریر کرکے نوٹ پیڈ احمد کے آگے کی۔
سبحان کا جواب پڑھ کے احمد کی نظریں اس کی گود میں گئیں اور اس کے چہرے پہ مسکراہٹ رینگ گئی۔ چند لمحوں بعد اس کے ہاتھوں میں بھی موبائل تھا۔ سر عرفان نے کیا بتایا، کون سا فارمولا سمجھایا؟ انہیں اس کی خبر تھی اور نہ ہی جاننے کا شوق… کیونکہ وہ کالج پڑھنے نہیں دل بہلانے آتے تھے۔
……٭٭٭……
''خیر تو ہے عرفان صاحب، تھکے تھکے دکھائی دے رہے ہیں۔'' انگریزی کے سر بلال نے انہیں کنپٹی دباتے ہوئے اسٹاف روم میں داخل ہوتے دیکھ کر بآوازِ بلند دریافت کیا۔
''ہاں میاں ٹھیک ہی ہیں ہم۔ ہمیں کیا ہونا ہے!'' سر عرفان بیزاریت سے کہتے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئے۔ ہاتھ میں پکڑی کتابیں سامنے میز پر رکھ دیں۔
''پھر کیا بات ہے، کچھ پریشان لگ رہے ہیں؟'' سر بلال آج فارغ تھے، ان کا آج ایک ہی پیریڈ تھا جو صبح ہوگیا تھا۔ اب کرنے کو کچھ نہیں تھا لہٰذا اطمینان سے بسکٹ کھاتے اِدھر اُدھر متوجہ تھے۔
''ارے میاں پریشان کیوں نہ ہوں؟ اس باوا آدم کے زمانے کے نصاب نے بیزار کررکھا ہے۔ تقریباً سترہ سال ہوگئے ہیں کیمسٹری پڑھاتے ہوئے۔ وہی ایک نصاب جو ہمارے اماں باوا نے پڑھا تھا، اتنا پڑھا لیا ہے کہ اب اکتاہٹ ہوتی ہے۔'' سرعرفان نے بیزاریت سے سر کھجایا۔
''بات تو ٹھیک ہے آپ کی۔ چلیں چھوڑیں، کڑھ کڑھ کے کون سا نصاب تبدیل ہوجانا ہے۔''
''کیسے چھوڑ دیں؟'' سرعرفان یکدم جلال میں آگئے۔ ''یہ لڑکوں کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ اور یہ لڑکے!'' انہوں نے میز پہ مُکا مارا ''یہ لڑکے تو جیسے پڑھنے نہیں مزے کرنے آتے ہیں۔ ذرا جو موضوع پسند نہیں آیا جمائی پہ جمائیاں شروع۔ ارے میاں! اگر موضوع پسند نہیں آرہا تو کوشش کرو دلچسپی لینے کی۔ ذرا دماغ کو زحمت دو۔ سوال اٹھائو تو ہمیں بھی پڑھانے میں مزہ آئے، تمہیں بھی پڑھنے میں دلچسپی محسوس ہو۔ مگر نہیں صاحب…'' سرعرفان جیسے عظیم استاد کے لہجے میں آج مایوس ہی مایوسی تھی۔
……٭٭٭……
''یار باری! ذرا مجھے یہ سوالات اور
Deviation حل کرکے دے دو۔'' عامر نے قالین پہ بیٹھتے ہوئے اس کے آگے کتاب، قلم اور رجسٹر رکھا۔
''ہاں کہو کیا حل کرنا ہے؟ ہائیں یہ فزکس کے سوال حل کرواکے کیا ان کا اچار ڈالو گے؟''
باری کی سوالیہ نظریں اس پر سے ہوتی ہوئی کتاب پہ گئیں اور حیران رہ گئیں۔
''یہی سمجھ لو دوست! اسی کی بدولت تو آج سے تمہارے دوست کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں غوطہ زن ہوگا۔'' عامر نے جوش سے جواب دیتے ہوئے کتاب کھول کے مطلوبہ صفحہ نکالا۔
''کیا مطلب؟ تمہیں فزکس سے کب سے دلچسپی پیدا ہوگئی؟ تم تو آرٹس کے طالب علم ہو اور اسکول میں پڑھاتے بھی میتھس ہو، نا کہ فزکس۔''
''ہو نا بیوقوف! ارے میرے یار باری! میں جس اسکول میں پڑھاتا ہوں ناں، وہاںکے پرنسپل صاحب بڑے اچھے دل کے ہیں۔ مجھے پسند بھی بڑا کرتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے میٹرک کلاس کے فزکس کے سر اسکول چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ پرنسپل صاحب کو کوئی ٹیچر ہی نہیں مل رہا تھا۔ مجھ سے کہنے لگے کہ عامر صاحب مجھے فی الحال کوئی ٹیچر نہیں مل رہا، آپ سمجھدار بندے ہیں، آپ میٹرک کلاس کو فزکس پڑھادیں گے؟ میری تو سمجھو لاٹری نکل آئی۔ اچھا ہے ناں، تنخواہ میں بھی اچھا خاصا اضافہ ہوگیا ہے۔ اب تم میرا منہ مت دیکھو، جلدی سے مجھے یہ حل کرکے دے دو، میری کل کلاس ہے۔'' عامر کا جوش عروج پر تھا اور باری بے یقینی اور افسوس سے اس کا منہ تک رہا تھا۔
……٭٭٭……
''یااللہ میں کیا کروں! مجھے اس کا ایک لفظ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔'' ماریہ کی بڑبڑاہٹ تفکر سے لبریز تھی۔ وہ ایک ذہین طالبہ تھی۔ اساتذہ کے تمام لیکچرز وہ بغور سنتی، انہیں نوٹ کرتی اور روز گھر آکر ان کا مطالعہ کرتی۔ اسے کبھی بھی ٹیوشن یا کوچنگ میں داخلہ لینے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ اور نہ ہی مالی حالات اسے اس کی اجازت دیتے تھے۔
مگر آج کل کچھ دنوں سے وہ عجیب کشمکش کا شکار تھی۔ جب سے فزکس کے سر عقیل اسکول چھوڑ کر گئے تھے، اسے نئے آنے والے سر عامر کا سمجھایا ہوا ذرّہ برابر سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ان کے پڑھانے کا انداز بھی عجیب تھا۔ کتاب میں سے سطریں پڑھ کر سناتے، پھر تختہ سیاہ پہ سوالات حل کردیتے۔ کوئی پوچھنے کی جسارت کرتا تو الٹا اسی سے سوال کرڈالتے کہ آپ بتائیں۔ یا پھر اگلے روز وضاحت کرنے کا وعدہ کرکے چلے جاتے۔ اور وہ اگلا روز کبھی نہ آتا۔
اُس نے کتنی دیر اسی ادھیڑ بن میں گزار دی۔ ٹیوشن لینا اس کے لیے کس طور ممکن نہیں تھا۔ ''پھر کیا میں اپنا مستقبل دائو پہ لگادوں!'' بے بسی سے اس کی شفاف آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔
……٭٭٭……
''سر میں اندر آجائوں؟'' فہد نے دروازے سے اندر جھانکا۔
''ہاں بیٹا آئو۔'' سر نے کتاب پر سے سر اٹھاکر اثبات میں سرہلایا۔ ''آئو بیٹھو'' انہوں نے اُسے میز کی دوسری جانب موجود کرسی پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
''سر میں یہ چند موضوعات پڑھ نہیں سکا ہوں۔ آپ پلیز مجھے یہ سمجھا دیں گے؟'' اس نے کتاب کھول کر ان کے آگے رکھی۔ وہ اس کالج میں نیا تھا۔ چند روز پہلے ہی راولپنڈی سے ٹرانسفر ہوکے یہاں آیا تھا۔
''بیٹا میں ایسے تو نہیں سمجھا سکوں گا۔ آپ ایسا کریں میری کوچنگ اکیڈمی آجائیں، میں آپ کو تسلی سے سب سمجھا دوں گا۔'' انہوں نے ایک چٹ پہ اپنی اکیڈمی کا نام پتا تحریر کرکے اس کی طرف بڑھایا۔
''مگر سر مجھے تو صرف یہ چند ٹاپکس سمجھنے ہیں۔ یہ تو آپ مجھے یہاں بھی سمجھا سکتے ہیں۔'' فہد نے بے حد حیرت سے ان کی سمت دیکھا۔
''سوری میں یہاں نہیں سمجھا سکتا۔ آپ اکیڈمی آجائیں، میں سمجھا دوں گا۔ آپ جاسکتے ہیں۔'' سر نے ٹھنڈے لہجے میں کہہ کے کتاب دوبارہ کھول لی۔
''مگر سر…'' فہد نے مزید کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ انہوں نے اسے ہاتھ اٹھا کے روک دیا۔ اب عزت اسی میں تھی کہ وہاں سے اٹھ جایا جائے۔ فہد کو اپنی عزت پیاری تھی، لہٰذا وہ خاموشی سے وہاں سے اٹھ گیا۔
……٭٭٭……
''اپنے اپنے پرچوں کی طرف دھیان دیں، اِدھر اُدھر مت دیکھیں۔'' نگران ٹیچر نے کمرۂ امتحان میں شرقاً غرباً ٹہلتے ہوئے طالبات کو تنبیہہ کی۔ تمام طالبات معصومیت کا پیکر بنی پرچوں کی جانب متوجہ تھیں۔
فریحہ نے بے زاری سے ٹیچر کی طرف دیکھا اور آنکھ بچاکر اگلی نشست پہ بیٹھی ہما کی کرسی پر پیر مارا۔ ہما اشارہ سمجھ کر کچھ ٹیڑھی ہوکے ایسے بیٹھ گئی کہ پیپر فریحہ کو نظر آنے لگا۔
فریحہ نے اطمینان سے اس کا لکھا ہوا اپنی کاپی میں اتارا اور مطمئن ہوکے ٹیچر کو پرچہ تھماکر باہر نکل آئی۔ ہما بھی پیپر دے کر باہر آگئی تھی۔ دونوں آج کی سخت مزاج نگران کو بیوقوف بناکر مطمئن و سرور تھیں۔
……٭٭٭……
کلاس ختم ہونے میں پانچ منٹ باقی تھے۔ تمام طلبہ و طالبات نے غیر محسوس طریقے سے اپنے کاغذات اور بیگ سمیٹ لیے۔ کلاس ختم ہوتے ہی فوراً انہیں دوسری کلاس اٹینڈ کرنے دوسرے ڈپارٹمنٹ جانا تھا جہاں میڈم درخشاں کا پیریڈ ہونا تھا جو کہ غصہ کے معاملے میں ساری یونیورسٹی میں مشہور تھیں۔
''یہ سر کب جائیں گے؟ روز دیر سے کلاس سے نکلتے ہیں۔'' اِدھر اُدھر سے دھیرے دھیرے سرگوشیاں ہونا شروع ہوگئیں۔ کچھ لوگ کبھی سر کو کبھی کلائیوں میں بندھی گھڑیوں کو تفکر سے دیکھ رہے تھے۔ پوری کلاس میں بے چینی سی پھیل گئی تھی۔
''کیا بات ہے؟ کیا مسئلہ ہے آپ لوگوں کے ساتھ؟'' سر نے لیکچر روک کر کڑی نظروں سے چاروں طرف دیکھا۔
''سر آپ کا پیریڈ ختم ہوگیا ہے۔ پانچ منٹ اوپر ہوگئے ہیں۔ اگلی کلاس اٹینڈ کرنے دوسرے ڈپارٹمنٹ جانا ہے۔'' سی۔ آر نے کھڑے ہو کر فوراً کہا۔
''تو آپ لوگ انہی کی کلاس لے لیں۔ میں تو یہاں کھڑا ہوکر بے کار باتیں کررہا ہوں، جنہیں سننا آپ لوگوں کے لیے اہم نہیں ہے۔'' سر نے غصہ میں کتاب اٹھائی اور دروازے کی طرف بڑھ گئے۔
''دیکھو بھئی سر کو کل منالیں گے، ابھی جلدی سے چلو، وہاں جا کے بھی ڈانٹ کھانی ہے۔'' سی آر نے کلاس کو پریشان دیکھ کر کہا اور وہ سب جلدی سے باہر آگئے۔
جلدی جلدی رکشوں میں بھر کر وہ لوگ میڈم کی کلاس میں پہنچ گئے تھے۔ میڈم آچکی تھیں۔
''آج پھر لیٹ! روزانہ کا تماشا بنا رکھا ہے آپ لوگوں نے۔ باہر ہی رہیں۔ کوئی ضرورت نہیں ہے اندر آنے کی۔'' میڈم نے انہیں دیکھ کر جو سنانا شروع کیا تو بس اللہ دے اور بندہ لے!
اتنی بڑی یونیورسٹی میں ایک ڈپارٹمنٹ سے دوسرے ڈپارٹمنٹ تک جانے میں دیر تو ہو ہی جاتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ شیڈول بنانے والے اس طرف دھیان دے کر شیڈیول بناتے تو نہ اساتذہ کو کوفت ہوتی نہ طلبہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے۔
……٭٭٭……
''تم نے انگریزی کا اسائنمنٹ بنا لیا؟'' فہد جو سونے کی تیاری کررہا تھا، موبائل پہ منیب کا پیغام پڑھ کے اٹھ بیٹھا۔ کل اسائنمنٹ جمع کروانے کی آخری تاریخ تھی اور اس نے ابھی تک تیار نہیں کیا تھا۔ وہ تیزی سے کمپیوٹر کی طرف بڑھ گیا۔ انٹرنیٹ کھول کے اس نے اسائنمنٹ کا موضوع لکھا۔ لمحوں میں متعلقہ موضوع پہ کئی صفحات پر مبنی مضمون کھل گیا۔ اس نے جلدی جلدی اس مواد کو اپنے کمپیوٹر میں کاپی کرکے پرنٹ آئوٹ نکال لیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اسائنمنٹ تیار تھا۔
فہد نے نہ موضوع کو سمجھنے کی کوشش کی اور نہ پرنٹ نکلے صفحات کو پڑھنے کی۔ کیونکہ اسے اپنی معلومات میں اضافہ کرنے سے زیادہ نمبروں کی ضرورت تھی۔ علم آئے نہ آئے، گریڈ اچھا آنا چاہیے۔
……٭٭٭……
''مس فرزانہ نے ہم سب کو ٹیسٹ میں فیل کردیا ہے۔'' ماریہ نے کلاس میں آکر دھماکا کیا۔
''کیا؟؟؟''
''تم لوگوں کو سمجھایا تھا نا، مس سے پنگا مت لینا! دیکھ لیا نتیجہ!''
''اب کیا ہوگا…؟؟''
''ٹیسٹ کے مارکس تو فائنل میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔'' بھانت بھانت کی آوازیں تھیں۔ بہت سی طالبات رو دینے کو تھیں۔
کچھ دن پہلے لڑکیوں کا کسی بات پر مس فرزانہ سے اختلاف ہوگیا تھا۔ لڑکیاں بات
V.C صاحب کے پاس لے گئیں تو V.C صاحب نے مس فرزانہ کو ڈانٹ دیا۔ مس فرزانہ کو غصہ تو تھا ہی، ڈانٹ سن کر مزید آگ بگولا ہوگئیں۔ اسی غصہ یا انتقام کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے ساری کلاس کو ٹیسٹ میں فیل کردیا۔
……٭٭٭……
یہ چند افسوسناک واقعات ہمارے چاروں طرف بکھرے پڑے ہیں۔ انا، خودغرضی اور بے حسی کے لبادے میں ملبوس آج کے انسان جب اپنی ذات کے گنبد میں قید ہوجائیں تو قوموں کے جنازے ہی نکلا کرتے ہیں۔ علم کی شمع دم توڑ رہی ہے۔ ہے کوئی جو اسے بجھنے سے بچالے؟
 

No comments:

Post a Comment