Wednesday, 13 March 2013

(•۝• ѴƲ cℓʋв •۝•) اس کتاب میں کیا تھا؟

اس کتاب میں کیا تھا؟

1983ء کی بات ہے، افغانستان میں جہاد تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ ایک طرف مجاہدین سوویت یونین اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ نبرد آزما تھے تو دوسری طرف پاکستان کا سیکولر بایاں بازو اور قوم پرست امیدِ موہوم میں گرفتار ہوکر خوابوں کے اسیر ہوگئے تھے۔ اسلامی پارٹیاں بھی ایک کشمکش کی گرفت میں تھیں۔ خیال گزرتا تھا کہ کیا مجاہدین سوویت یونین کو شکست دے سکیں گے؟ سوویت یونین کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے 20 ویں صدی کے آخری حصہ میں افغانستان کی سرزمین پر سرخ فوج اتار دی تھی اور پاکستان بم دھماکوں کی زد میں آگیا تھا۔ ایک افراتفری سی نظر آرہی تھی اور بلوچستان میں یہ خیال بڑی تیزی سے گردش کررہا تھا کہ پاکستان بکھر جائے گا اور بلوچستان آزاد ہوجائے گا۔ اس خیال کے حامی گروہ تمام امیدیں افغانستان میں سوویت یونین کی کامیابی سے باندھ چکے تھے اور انہیں یہ کامیابی بالکل قریب لگ رہی تھی، اس لیے کہ سوویت یونین نے اُس وقت تک کسی جنگ میں شکست نہیں کھائی تھی۔ روس نواز دانشور اور سیاست دان اس طرح سوچ رہے تھے تو وہ اپنی دانست میں بالکل درست تھے۔ پاکستان میں کے جی بی نے اپنا نیٹ ورک پھیلادیا تھا اور کارروائیاں ہورہی تھیں۔
کچھ ایسا ہی نقشہ اب پاکستان میں نظر آرہا ہے۔ اس وقت افغانستان میں بھارت، روس، اسرائیل اور امریکا موجود ہیں اور پاکستان بین الاقوامی سازشوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔1978ء میں افغانستان میں سوشلسٹ بلاک موجود تھا۔ 2001ء کے بعد سے ایٹمی طاقت رکھنے والی 5 قوتیں موجود ہیں، اور سب سے بڑھ کر اسرائیل امریکا گٹھ جوڑ اور بھارت کی شرکت نے پاکستان کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ لیکن امریکا کا بھرم طالبان اور حزب اسلامی نے کھول کر رکھ دیا ہے۔ اب جو کچھ پاکستان میں ہورہا ہے اور خاص طور پر جو کھیل کوئٹہ اور کراچی میں کھیلا جارہا ہے اس کے پس منظر کا تجزیہ ضروری ہے تاکہ پاکستان کے عوام اصل دشمن سے آگاہ ہوسکیں، اس کھیل کو روک سکیں اور اپنے آپ کو اس سازش کا شکار نہ ہونے دیں۔ جو کچھ پاکستان میں ہورہا ہے تو خیال آیا کہ اس کے پس منظر میں تو امریکا ہے اور اس پر نظر رکھنی چاہیے، مگر شاطروں نے بڑی عیاری اور چاپلوسی سے اس کھیل کو کسی اور طرف موڑ دیا ہے، اصل دشمن پردے میں چلا گیا ہے اور عوام فریب ِنظر کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔
ایک واقعہ سن لیجیے: قاضی حسین احمد 1983ء میں کوئٹہ تشریف لارہے تھے۔ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ جہاز کے آنے میں کچھ دیر تھی۔ اتنے میں اچانک ایک صاحب میری طرف آئے اور مجھ سے ہاتھ ملاکر کہا کہ میں قاضی حسین احمد سے ملنا چاہتا ہوں۔ اُن سے پوچھا کہ آپ کیوں ملنا چاہتے ہیں؟ تو انہوں نے اپنا تعارف کرایا کہ میرا تعلق آئی ایس آئی سے ہے، میجر کے منصب پر ہوں اور قاضی صاحب کو ایک خاص کتاب دینا چاہتا ہوں جو روس کے فوجیوں کے لیے لکھی گئی ہے، اس میں بعض منصوبوں پر عمل درآمد کے طریقے بتائے گئے ہیں، یہ فوٹو کاپی ہے۔ جب قاضی صاحب آئے تو ان سے ان صاحب کا ذکر کیا، قاضی صاحب نے کہا کہ انہیں کل کا وقت دے دیں۔ ان صاحب کو بتایا کہ کل آپ فلاں وقت تشریف لے آئیں،  ملاقات کا اہتمام ہوجائے گا۔ وہ دوسرے دن مقررہ وقت سے پہلے دوست کی دکان پر تشریف لے آئے۔ ان کے پاس کتاب فوٹو اسٹیٹ کی صورت میں موجود تھی۔ اُس وقت ان سے ذرا تفصیل سے بات ہوئی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ افغانستان میں اس وقت حزب اسلامی اور جمعیت اسلامی کی آپس کی کشمکش میں روسیوں سے زیادہ مجاہدین مارے جارہے ہیں۔ روسیوں نے جرمنی میں اپنے اس منصوبے پر عمل کیا تو جرمنوں نے آپس میں 40 ہزار سے زیادہ لوگ قتل کردیے۔ روسیوں نے جس فارمولے پر عمل کیا وہ کتاب میں درج ہے۔ اب سوویت یونین افغانستان میں ان فارمولوں پر عمل کررہا ہے اور مجاہدین ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں۔ روزانہ اوسط10 سے 15 ہے۔ ان سے پوچھا کہ وہ کیا کرتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ حزب اسلامی کے مجاہد کو خود مارتے ہیں اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ جمعیت اسلامی نے مارا ہے، اور پھر جمعیت کے مجاہدین کو مارتے ہیں اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ حزب اسلامی نے مارا ہے۔
اب امریکا پاکستان میں اسی منصوبے پر عمل کررہا ہے ۔ دونوں طرف ایک ہی ہاتھ کارفرما ہے اور اس کی کوشش ہے کہ مسلمانوں میں باہم تصادم ہو، مگر وہ اس میں ناکام نظر آرہا ہے۔ امریکا کو چونکہ ایران میں بری طرح شکست ہوئی ہے اور ایران اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے، اب وہ پاکستان میں شیعہ اور سنّی کو متصادم کرانا چاہتا ہے۔ امریکا اور مغربی استعمار اپنی مذموم کوششیں جاری رکھیں گے۔ عوام ابھی تک اس سازش سے دامن بچائے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے مذہبی جماعتوں کا کردار بڑا اہم ہے، اس لیے امریکا ناکام رہا ہے۔ اب اس کی کوشش ہے کہ عربوں اور ایران کو ایک بار پھر متصادم کردے۔ ایران کو اس سے اپنا دامن بچانا ہوگا۔ امریکا عجم اور عرب آویزش کو ہوا دینا چاہتا ہے اور پاکستان میں شیعہ، سنی مسئلہ کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ کل سے زیادہ آج ملّی یکجہتی کونسل کی ضرورت ہے۔ قاضی حسین احمد کی وفات نے بہت بڑا خلا پیدا کردیا ہے… اسے کون پُر کرے گا اور کیسے پُر کرے گا؟ امریکا افغانستان سے جاتے جاتے پاکستان کو مضطرب رکھنا چاہتا ہے اور سوویت یونین کے اسی فارمولے پر عمل کررہا ہے جو اس نے افغانستان میں استعمال کیا تھا۔
 

No comments:

Post a Comment