Saturday 27 April 2013

(•۝• ѴƲ cℓʋв •۝•) میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟۔۔۔۔۔۔۔۔15

میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟

سیٹھ محمد عمر/ رام جی لال گپتا

میں لکھنؤ کے قریب ایک قصبے کے تاجر خاندان میں 6 دسمبر 1939ء میں پیدا ہوا۔ گپتا ہماری گوت ہے۔ میرے پتا جی کریانے کی تھوک کی دکان کرتے تھے۔ ہماری چھٹی پیڑھی سے ہر ایک کے یہاں ایک ہی اولاد ہوتی آئی ہے۔ میں اپنے پتا جی (والد صاحب) کا اکیلا بیٹا تھا۔ نویں کلاس تک پڑھ کر دکان پر لگ گیا۔ میرا نام رام جی لال گپتا میرے پتا جی نے رکھا۔
 
گھر کا ماحول بہت دھارمک (مذہبی) تھا، ہمارے پتا جی (والد صاحب) ضلع کے بی جے پی، جو پہلے جن سنگھ تھی، کے ذمہ دار تھے۔ اس کی وجہ سے اسلام اور مسلم دشمنی ہمارے گھر کی پہچان تھی اور یہ مسلم دشمنی جیسے ہماری گھٹی میں پڑی تھی۔ 1986 ء میں بابری مسجد کا تالا کھلوانے سے لے کر بابری مسجد کی مسماری کے گھناؤنے جرم تک اس پوری تحریک میں آخری درجے کے جنون کے ساتھ شریک رہا۔ میری شادی ایک بہت بھلے اور سیکولر خاندان میں ہوئی۔ میری بیوی کا مزاج بھی اسی طرح کا تھا اور مسلمانوں سے ان کے گھر والوں کے بالکل گھریلو تعلقات تھے۔ میری بارات گئی تو سارے کھانے اور شادی کا انتظام ہمارے سسر کے ایک دوست خان صاحب نے کیا تھا اور دسیوں داڑھی والے وہاں انتظام میں تھے، جو ہم لوگوں کو بہت برا لگا تھا اور میں نے ایک بار تو کھانا کھانے ہی سے انکار کر دیا تھا کہ کھانے میں مسلمانوں کا ہاتھ لگا ہے، ہم نہیں کھائیں گے، مگر بعد میں میرے پتا جی (والد صاحب) کے ایک دوست تھے پنڈت جی۔ انھوں نے سمجھایا کہ ہندو دھرم میں کہاں آیا ہے کہ مسلمانوں کا ہاتھ لگا کھانا نہیں کھانا چاہیے۔ بڑی کراہت کے ساتھ بات نہ بڑھانے کے لیے میں نے کھانا کھا لیا۔ 1952ء میں میری شادی ہوئی تھی۔ نو سال تک ہمارے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ نو سال کے بعد مالک نے 1961 ء میں ایک بیٹا دیا۔ اس کا نام میں نے یوگیش رکھا۔ اس کو میں نے پڑھایا اور اچھے اسکول میں داخل کرایا اور اس خیال سے کہ پارٹی اور قوم کے نام سے اس کو ارپت (وقف) کروں گا، اس کو سماج شاستر، علم سماجیات (Sociology) میں پی ایچ ڈی کرائی۔ شروع سے آخر تک وہ ٹاپر رہا، مگر اس کا مزاج اپنی ماں کے اثر میں رہا اور ہمیشہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمانوں کی طرف مائل رہتا۔ فرقہ وارانہ مزاج سے اس کو الرجی تھی۔ مجھ سے، بہت ادب کرنے کے باوجود، اس سلسلے میں بحث کر لیتا تھا۔ دو بار وہ ایک ایک ہفتے کے لیے میرے رام مندر تحریک میں جڑنے اور اس پر خرچ کرنے سے ناراض ہو کر گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کی ماں نے فون پر رو رو کر اس کو بلایا۔
 
مسلمانوں کو میں اس ملک پر قبضہ کرنے والا مانتا تھا اور میں سمجھتا تھا کہ مسلمانوں نے رام جنم بھومی مندر کو گرا کر مسجد بنائی ہے۔ میں ہر قیمت پر یہاں رام مندر بنانا چاہتا تھا، اس کے لیے میں نے تن من دھن سب کچھ لگایا۔ 1987ء سے لے کر 2005 ء تک رام مندر آندولن اور بابری مسجد گرانے والے کارسیوکوں پر اور وشوا ہندو پریشد کو چندے میں کل ملا کر 25 لاکھ روپے اپنی ذاتی کمائی سے خرچ کیے۔ میری بیوی اور یوگیش اس پر ناراض بھی ہوئے تھے۔ یوگیش کہتا تھا کہ اس دیش پر تین طرح کے لوگ آ کر باہر سے راج کرتے آئے ہیں۔ ایک تو آرین آئے، انھوں نے اس دیش میں آ کر ظلم کیا۔ یہاں کے شودروں کو داس بنایا، اور اپنی ساکھ بنائی۔ دیش کے لیے کوئی کام نہ کیا۔ آخری درجے کے اتیا چار (ظلم) کیے، کتنے لوگوں کو مارا، قتل کیا، کتنے لوگوں کو پھانسی لگائی۔
 
دوسرے نمبر پر مسلمان آئے۔ انھوں نے اس دیش (ملک) کو اپنا دیش (ملک) سمجھ کر دیش کو ترقی دی۔ یہاں لال قلعہ بنایا۔ تاج محل جیسا دیش کے گورو کا پاتر (قابل فخر عمارت) بنائی۔ یہاں کے لوگوں کو کپڑا پہننا سکھایا۔ بولنا سکھایا۔ یہاں پر سڑکیں بنوائیں۔ سرائیں بنوائیں۔ خسرہ کھتونی، ڈاک کا نظام اور آب پاشی کا نظام بنایا۔ نہریں نکالیں اور دیش میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ایک کر کے ایک بڑا بھارت بنایا۔ ایک ہزار سال تک الپ سنکھیا (اقلیت) میں رہ کر اکثریت پر حکومت کی اور ان کو مذہب کی آزادی دی۔ وہ مجھے تاریخ کے حوالوں سے مسلمان بادشاہوں کے انصاف کے قصے دکھاتا، مگر میری گھٹی میں اسلام دشمنی تھی، وہ نہ بدلی۔ تیسرے نمبر پر انگریز آئے وہ یہاں سے سب کچھ لوٹ کر چلتے بنے۔
 
30 دسمبر 1990 کی کارسیوا میں بھی میں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور 5دسمبر 1992 کو تو میں خود ایودھیا گیا۔ میرے ذمے ایک پوری ٹیم کی کمان تھی۔ بابری مسجد گرا دی گئی تو میں نے گھر آ کر ایک بڑی دعوت کی۔ میرا بیٹا یوگیش گھر سے ناراض ہو کر چلا گیا۔ میں نے خوب دھوم دھام سے جیت کی تقریب منائی۔ رام مندر کے بنانے کے لیے دل کھول کر خرچ کیا، مگر اندر سے ایک عجیب سا ڈر تھا، جو میرے دل میں بیٹھ گیا اور بار بار ایسا خیال ہوتا تھا کہ کوئی آسمانی آفت مجھ پر آنے والی ہے۔ 6 دسمبر 1993 آیا تو صبح صبح میری دکان اور گودام میں جو فاصلے پر تھے، شارٹ سرکٹ ہونے سے دونوں میں آگ لگ گئی۔ اور تقریباً دس لاکھ روپے سے زیادہ کا مال جل گیا، اس کے بعد تو میں اور بھی زیادہ سہم گیا۔ ہر 6 دسمبر کو ہمارا پورا پریوار (خاندان) سہما سا رہتا تھا اور کچھ نہ کچھ ہو بھی جاتا تھا۔ 6 دسمبر 2005 کو یوگیش ایک کام کے لیے لکھنؤ جا رہا تھا، اس کی گاڑی ایک ٹرک سے ٹکرائی اور میرا بیٹا اور ڈرائیور موقع پر انتقال کر گئے۔ اس کا نو سال کا ننھا سا بچہ اور چھ سال کی ایک بیٹی ہے۔ یہ حادثہ میرے لیے ناقابل برداشت تھا اور میرا دماغی توازن خراب ہو گیا۔ کاروبار چھوڑ کر در بدر مارا پھرتا۔ میری بیوی مجھے بہت سے مولوی لوگوں کو دکھانے لے گئی۔ ہر دوئی میں بڑے مولوی صاحب کے مدرسے میں لے گئی۔ وہاں پر بہار کے ایک قاری صاحب ہیں، وہاں کچھ ہوش تو ٹھیک ہوئے، مگر دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ میں غلط راستے پر ہوں، مجھے اسلام کے بارے میں پڑھنا چاہیے۔ میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔
 
میں نے سب سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر ایک چھوٹی کتاب پڑھی، اس کے بعد ''اسلام کیا ہے؟'' پڑھی۔ ''اسلام ایک پریچے'' شیخ علی میاں جی کی پڑھی۔ 5 دسمبر 2006 کو مجھے مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب کی چھوٹی سی کتاب ''آپ کی امانت آپ کی سیوا میں'' ایک لڑکے نے لا کر دی۔ 6 دسمبر کی تاریخ اگلے روز تھی۔ میں ڈر رہا تھا کہ اب کل کو کیا حادثہ ہو گا۔ اس کتاب نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ مسلمان ہو کر اس خطرے سے جان بچ سکتی ہے اور میں 5 دسمبر کی شام کو پانچ چھ لوگوں کے پاس گیا، مجھے مسلمان کر لو، مگر لوگ ڈرتے رہے، کوئی آدمی مجھے مسلمان کرنے کو تیار نہ ہوا۔
 
میں نے 5 دسمبر 2006 کو مسلمان ہونے کا پکا ارادہ کر لیا تھا، مگر اس سال 22 جنوری تک مجھے کوئی مسلمان کرنے کو تیار نہیں تھا۔ مولوی کلیم صاحب کو ایک لڑکے نے جو ہمارے یہاں سے جا کر پھلت مسلمان ہوا تھا، بتایا کہ ایک لالہ جی جو رام جنم بھومی تحریک میں بہت خرچ کرتے تھے، مسلمان ہونا چاہتے ہیں تو مولوی صاحب نے محمد عامر ماسٹر صاحب کو (جو خود بابری مسجد کی مسماری میں سب سے پہلے کدال چلانے والے تھے) بھیجا، وہ پتا ٹھیک نہ معلوم ہونے کی وجہ سے تین دن تک دھکے کھاتے رہے۔ تین دن کے بعد 22 جنوری کو مجھے ملے اور انھوں نے مجھے کلمہ پڑھوایا اور مولوی صاحب کا سلام بھی پہنچایا۔ صبح سے شام تک وہ مولوی صاحب سے فون پر بات کرانے کی کوشش کرتے رہے، مگر مولوی صاحب مہاراشٹر کے سفر پر تھے۔ شام کو کسی ساتھی کے فون پر بڑی مشکل سے بات ہوئی۔ ماسٹر صاحب نے بتایا کہ سیٹھ جی سے ملاقات ہو گئی ہے اور الحمد للہ! انھوں نے کلمہ پڑھ لیا ہے۔ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں اور آپ انھیں دوبارہ کلمہ پڑھوا دیں۔ مولوی صاحب نے مجھے دوبارہ کلمہ پڑھوایا اور ہندی میں بھی عہد کروایا۔
 
میں نے جب مولوی صاحب سے عرض کیا کہ حضرت! مجھ ظالم نے اپنے پیارے مالک کے گھر کو ڈھانے اور اس کی جگہ شرک کا گھر بنانے میں اپنی کمائی سے 25 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں، اب میں نے اس گناہ کی معافی کے لیے ارادہ کیا ہے کہ 25 لاکھ روپے سے ایک مسجد اور مدرسہ بنواؤں گا۔ آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ جب اس کریم مالک نے اپنے گھر کو گرانے کو میرے لیے ہدایت کا ذریعہ بنا دیا ہے تو مالک میرا نام بھی اپنا گھر ڈھانے والوں کی فہرست سے نکال کر اپنا گھر بنانے والوں میں لکھ لیں۔
 
میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ میرا کوئی اسلامی نام بھی رکھ دیجیے۔ مولوی صاحب نے فون پر بہت مبارک باد دی اور دعا بھی کی، اور میرا نام محمد عمر رکھا۔ میرے مالک کا مجھ پر کیسا احسان ہوا۔ اگر میرا رواں رواں، میری جان، میرا مال سب کچھ مالک کے نام پر قربان ہو جائے تو بھی اس مالک کا شکر کیسے ادا ہو سکتا ہے کہ میرے مالک نے میرے اتنے بڑے ظلم اور پاپ کو ہدایت کا ذریعہ بنا دیا۔
 
میرے مالک کا کرم ہے کہ میری بیوی، یوگیش کی بیوی اور دونوں بچے بھی مسلمان ہو گئے ہیں۔ میں نے الحمد للہ، گھر پر ٹیوشن لگائی ہے۔ ایک بڑے نیک مولوی صاحب مجھے مل گئے ہیں۔ وہ مجھے قرآن بھی پڑھا رہے ہیں، سمجھا بھی رہے ہیں۔
 
مولوی کلیم صاحب نے مجھے توجہ دلائی کہ آپ کی طرح کتنے ہمارے خونی رشتے کے بھائی بابری مسجد کی مسماری میں غلط فہمی میں شریک رہے۔ آپ کو چاہیے کہ ان پر کام کریں۔ ان تک سچائی کو پہنچانے کا ارادہ کریں۔ میں نے اپنی یادداشت سے ایک فہرست بنائی ہے۔ اب میری صحت اس لائق نہیں کہ میں کوئی بھاگ دوڑ کروں، مگر جتنا دم ہے، وہ تو اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ اس کے بندوں تک پہنچانے میں لگنا چاہیے۔
 
میرے یوگیش کا غم مجھے ہر لمحہ ستاتا ہے۔ مرنا تو ہر ایک کو ہے۔ موت تو وقت پر آتی ہے اور بہانہ بھی پہلے سے طے ہے، مگر ایمان کے بغیر میرا ایسا پیارا بچہ جو مجھ جیسے ظالم اور اسلام دشمن، بلکہ خدا دشمن کے گھر پیدا ہو کر صرف مسلمانوں کا دم بھرتا ہو، اسلام کے بغیر مر گیا۔ اس بچے کا حق ادا نہ کرنے کا احساس میرے دل کا ایسا زخم ہے، جو مجھے کھائے جا رہا ہے۔ ایسے نہ جانے کتنے جوان، بوڑھے موت کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی خبر لیں۔
٭
(بشکریہ ،ماہنامہ'اللہ کی پکار، دہلی' جولائی 2009)

No comments:

Post a Comment