میں نے اسلام کیوں قبول کیا
ڈاکٹر الفریڈ ہوف مین(جرمنی)
میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ اس کا جواب دینا بہت مشکل ہے۔ ویسے اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق پر منحصر ہے۔ یہ سوال ایسا ہے جیسے کسی شوہر سے پوچھا جائے کہ وہ اپنی بیوی سے کیوں محبت کرتا ہے یا اسی طرح بیوی سے دریافت کیا جائے کہ وہ اپنے شوہر سے کیوں محبت کرتی ہے، تو اس کا کوئی منطقی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ پھر بھی میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرے قبول اسلام کے بہت سارے اسباب و محرکات تھے۔ میں ١٩٣٠ء میں ایک راسخ العقیدہ کیتھولک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا ۔ اس وقت جرمنی میں نازی حکومت تھی۔ دوسری عالمی جنگ اپنے شباب پر تھی۔ جرمنی برطانیہ اور امریکہ وغیرہ سے برسرپیکار تھا اور وہاں بی بی سی سننے کی سزا موت تھی۔ میں طلبہ کی ایک خفیہ عیسائی تنظیم Jesuits سے وابستہ ہو گیا۔ اس کے ممبران میں تقریباً ٨٠ فیصد طلبہ ایسے تھے جو اپنی کلاس میں نمایاں تھے۔ ہم تنظیم کے پلیٹ فارم سے خفیہ عیسائیت کی تبلیغ کر رہے تھے۔ جب ہٹلر کی فوجیں جنگ میں ناکام ہوئیں اور امریکی فوجیں ہمارے شہر میں داخل ہوئیں تو لگتا تھا کہ موت ہمارے ساتھ ساتھ ہے، اس کی وجہ سے میرے اس یقین میں اضافہ ہوا کہ موت کبھی بھی آ سکتی ہے۔
ایک کیتھولک راسخ العقیدہ گھرانے میں پیدائش کے باوجود عیسائی عقائد میرے حلق سے نیچے نہیں اتر رہے تھے۔ تین خداؤں کا عقیدہ، مریم کا خدا کی ماں ہونا، پیدایشی گناہ گار ہونا یا آدم نے جو گناہ کیا، اس کا بوجھ ہر انسان کو اٹھانا اور انسانوں کو گناہوں سے نجات دلانے کے لیے عیسیٰ کا صلیب پر چڑھنا، یہ سب عقائد میری سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ ان کے مقابلے میں مجھے اسلامی عقائد اور تعلیمات مدلل اور معقول معلوم ہوتے تھے۔ جب میں اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے ان کے بارے میں دریافت کرتا تو ان کا جواب یہ ہوتا کہ یہ سب راز ہیں، بس ان پر عقیدہ رکھنا چاہیے۔ میں ان سے کہتا تھا کہ میں ان پر یقین کرنے کے لیے تیار ہوں، لیکن وہ میری سمجھ میں تو آئیں۔ میں سوچتا تھا کہ کیا اللہ تعالیٰ کے پاس انسانیت کو راہ راست پر لانے کے لیے اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں تھا کہ اس نے ایک بچے کو جنم دیا، پھر اسے ذلت کے ساتھ صلیب پر چڑھا دیا، اس طرح سے اس نے انسانوں کی معافی کا انتظام کیا۔ ایک اور بات یہ ہے کہ عیسائیت اس کا دعویٰ کرتی ہے کہ وہ محبت پر مبنی ہے، جبکہ میں نے دیکھا کہ اکثر عیسائیوں کا طرز عمل اس سے میل نہیں کھاتا۔
جرمنی میں ابتدائی تعلیم کے بعد میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ گیا۔ اور وہاں سماجیات کا مطالعہ کیا۔ امریکہ میں قیام کے دوران میں اکثر شام کو سڑکوں پر دوڑتی ہوئی کاروں سے لفٹ لیتا اور مختلف مقامات کی سیر کرتا تھا۔ ایک دن میں جس کار میں بیٹھا تھا، اس کی شدید ٹکر دوسری کار سے ہو گئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے بچا لیا۔ اس وقت ڈاکٹروں نے مجھ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تم سے کوئی کام لینا چاہتا ہے، ورنہ ممکن نہیں تھا کہ تم اس حادثے میں بچ جاتے۔ اس سے میرے اس یقین میں اضافہ ہوا کہ جو کچھ کرتا ہے، اللہ کرتا ہے، پھر میرے پیشاب میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی۔ اس کا انکشاف اس وقت ہوا، جب میں جرمنی میں فارن سروسز میں شامل ہوا اور مجھے سعودی عرب جانے کے لیے کہا گیا۔ چیک اپ کے بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ مجھے کینسر ہو سکتا ہے، حالانکہ یہ بات صحیح نہیں تھی۔ میری کیتھولک بیوی اس سے قبل کینسر سے مر چکی تھی۔ پھر بھی میں پریشان نہیں ہوا اور اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے صبر سے کام لیا۔ کچھ باتوں کی وجہ سے مجھے ایک گردے سے محروم ہونا پڑا، اس وقت بھی میں نے یہی سوچا کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی مصلحت ہے کہ اس نے ایک ایسی بیماری میں مجھے مبتلا کیا اور میرا ایک گردہ نکال دیا گیا۔
فارن سروس کے دوران مجھے الجزائر جانے کا موقع ملا۔ وہاں میں ایک خاص مشن پر تھا۔ اس وقت الجزائر فرانس کے ماتحت تھا اور فرانس میں سامراجیت وہاں کے لوگوں پر بے پناہ ظلم کر رہی تھی، جو ناقابل بیان ہے۔ ہر ماہ وہاں ایک ہزار افراد فوجیوں کی گولیوں سے بھون دیے جاتے تھے۔ پھر بھی میں نے دیکھا کہ وہاں کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ پر بہت اعتماد ہے (واضح رہے کہ الجزائر کو ساٹھ کی دہائی میں آزادی ملی) ایک بار ایک ٹیکسی ڈرائیور نے مجھ سے کہا کہ ہماری آبادی ایک کروڑ ہے۔ اگر یہ لوگ ہم میں سے دس بیس لاکھ یا اس سے زیادہ افراد کو بھی مار ڈالیں ، تب بھی ہم آزادی کی مانگ سے باز نہیں آئیں گے اور صبر و ثبات اور اللہ پر اعتماد کی جو قوت ہمارے اندر ہے، وہ ختم نہیں ہو سکتی۔ وہاں کے لوگوں کی ایمانی قوت نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں نے وہاں یہ بھی دیکھا کہ کیتھولک عیسائی ہونے کی وجہ سے اللہ، وحی، آخرت، فرشتوں اور اخلاقی اصولوں کے بارے میں میرے جو عقائد ہیں، ویسے ہی عقائد ان کے بھی ہیں، اسی دوران رمضان کا مہینا آیا اور مجھے قرآن مجید کا فرانسیسی ترجمہ پڑھنے کو ملا، جو اگرچہ معیاری نہیں تھا، پھر بھی اس سے میں بہت متاثر ہوا۔ قرآن مجید کے مطالعے کے دوران میں مجھے وہ آیت ملی، جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اس آیت پر میں غور کرتا رہا۔ ایک بار جب میں جنوبی الجزائر کے ایک نخلستان میں مقیم تھا تو میں نے وہاں ایک شخص سے اس آیت کا مطلب پوچھا۔ اس نے کہا کہ یہ آیت دو افراد کے درمیان معاملے پر روشنی نہیں ڈال رہی ہے، بلکہ اسلام کے بنیادی اصول کو پیش کر رہی ہے کہ کوئی شخص نہ تو دوسرے کے گناہوں کا ذمہ دار ہے اور نہ اس کا بوجھ اٹھائے گا۔ آدم کا گناہ منتقل ہوتا ہوا کسی دوسرے انسان تک نہیں پہنچا ہے۔ ہر انسان اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان کسی وسیلے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح میرے سامنے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ عیسائیت پوری کی پوری مفروضات پر قائم ہے۔ پھر مجھے محسوس ہوا کہ امت مسلمہ میں صاحب ایمان آزاد لوگ ہیں۔ ان میں ہر شخص ذمہ دار ہے اور عیسائیت میں موجود علاقائی تعصب سے پاک ہے، غرض یہ کہ قرآن مجید کی اس تعلیم نے مجھ پر گہری چھاپ چھوڑی کہ کوئی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، جبکہ عیسائیت کی تعلیم ہے کہ انسان آدم کے گناہ کا بوجھ اٹھاتا ہے اور عیسیٰ نے تو انسانوں کے گناہوں کا بوجھ اٹھایا ہے۔ گناہوں سے نجات اور پیدایشی گناہ گار ہونے کے بارے میں میرے جو اشکالات تھے، ان کا جواب قرآن میں مل گیا اور میں نے دل سے اسلام کو اپنا لیا ۔
اس کے بعد میں نے صحیح البخاری، صحیح مسلم، جامع الترمذی، سنن ابی داؤد وغیرہ حدیث کی کتابوں، ابن کثیر کی تفسیر، امام طبری کی تاریخ، ابن سینا، ابن رشد اور ابن خلدون وغیرہ کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور اسلام میرے دل و دماغ میں داخل ہوتا گیا۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ میں اپنے آبائی مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کی طرف جا رہا ہوں، بلکہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میری گھر واپسی ہے۔ میں بھٹکا ہوا تھا۔ اب میری اصل منزل مل گئی، اسی زمانے میں جب میرا لڑکا اٹھارہ سال کا ہوا تو میں نے اس سے کہا کہ تمھاری اٹھارہویں سالگرہ پر تمھیں ایک ایسی چیز تحفے میں دوں گا ، جس کی مادی اہمیت تو کچھ بھی نہیں ہے، لیکن وہ بیش قیمت تحفہ ہو گا، جو میری اب تک کی زندگی کے تجربات و مشاہدات اور تاثرات پر مشتمل ہو گا، پھر میں عقائد کے بارے میں جو کچھ سمجھا تھا اور جس نتیجے پر پہنچا تھا، وہ چودہ صفحات پر مرتب کر کے اسے اٹھارہویں سال گرہ پر تحفے میں دیا۔ جب ١٩٨٠ء میں جرمنی کے محکمہ خارجہ نے اسلام کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا تو اس میں میں نے وہ مضمون پڑھا۔ اس سیمینار کا مقصد جرمن سفارت کاروں کو دین ِ اسلام اور مسلم ملکوں کے حالات سے واقف کرانا تھا، اسی دوران میری ملاقات ایک مصری امام سے ہوئی۔ ان سے میں نے کہا کہ میں اسلام سے ہمدردی رکھتا ہوں اور میں نے انھیں مضمون پڑھنے کو دیا۔ انھوں نے کہا کہ چودہ صفحات پر مشتمل تمھارا یہ مضمون یہ ظاہر کرتا ہے کہ تم مسلمان ہو چکے ہو۔ یہ سن کر مجھے خوشی ہوئی، پھر انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے اس مضمون میں جو کچھ لکھا ہے، کیا تم اس پر یقین رکھتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، پھر میں نے کلمہ شہادت پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔
جب میں نے ''DIARY OF GERMAN MUSLIM'' لکھی اور سے جرمنی کے محکمہ خارجہ کو دکھایا تو اس کا اچھا رد عمل تھا۔ محکمے نے اسے بہت پسند کیا اور کہا چونکہ جرمنی کے بہت سارے سفیر مسلم ممالک میں ہیں، اس لیے ان سب کو اسلام سے واقف ہونا چاہیے۔ اسلام کے بارے میں یہ بہت اچھی کتاب ہے، پھر محکمے نے حکم دیا کہ یہ کتاب مسلم ممالک میں موجود جرمنی کے تمام سفرا کو مطالعے کے لیے بھیج دی جائے اور ایسا ہی کیا گیا۔ تمام سفرا نے کتاب کو پسند کیا اور تعریف کی۔ اس کے بعد میں سولہ ممالک کی تنظیم ناٹو (NATO) کے محکمہ اطلاعات کا ڈائرکٹر بن گیا۔ ناٹو کے مرکزی دفتر میں سالانہ تقریباً تیس ہزار لوگ معائنے کی غرض سے آتے تھے۔ انھیں ہم فلم دکھاتے۔ ناٹو کی کارروائیوں سے آگاہ کرتے۔ ان کے ساتھ دوپہر کے کھانے میں مجھے ہمیشہ شریک ہونا پڑتا تھا تو میں پلیٹ اور چمچہ لے کر خاموشی کے ساتھ ایک گوشے میں بیٹھ جاتا۔ کھاتا نہیں تھا۔ لوگ پوچھتے کہ کیا تم بیمار ہو؟ میں جواب دیتا: نہیں، میں مسلمان ہوں۔ بغیر حلال کیے جانور یا دیگر ناپاک چیزیں نہیں کھاتا ہوں اور جب رمضان کا مہینا آتا تو میں کہتا کہ روزے سے ہوں۔ ظہرانے کے دوران اسلام اور مسلمانوں پر گفتگو ہوتی رہتی تھی، اس کے بعد میرا تقرر الجیریا میں جرمنی کے سفیر کی حیثیت سے ہوا۔ اس تقرر سے پہلے محکمہ خارجہ میں یہ بحث ہوتی رہی کہ کیا ایک عیسائی ملک کا سفیر ایک مسلم بھی ہو سکتا ہے؟ آخر کار حکومت جرمنی نے فیصلہ کیا کہ کوئی جرمنی شہری کوئی بھی مذہب اختیار کر سکتا ہے اور وہ جرمنی کا سفیر بھی بن سکتا ہے۔
اس دوران فوکا یامہ نے اپنی کتاب "END OF HISTORY' لکھی۔ اس میں اس نے بڑی خوش اسلوبی سے بتایا کہ اب انسانیت کی تاریخ آخری دور میں داخل ہو چکی ہے، اس کا زوال ہو چکا ہے اور اب کوئی ایسا نظریہ نہیں بچا ہے، جو انسانیت کو بچا سکے۔ دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ سوویت یونین کا بکھراؤ، کمیونسٹ نظریے کی ناکامی، مغرب کا اخلاقی زوال اور سرمایہ دارانہ نظام کا استحصال وغیرہ اس کتاب کے اہم موضوعات تھے۔ کتاب میں یہ بھی بتایا گیا کہ اب دنیا میں جمہوریت، ماڈرنزم اور سیکولرزم کا وجود رہ گیا ہے۔کتاب پڑھنے کے بعد میں نے یہ طے کیا کہ اس کتاب کا جواب ضرور دوں گا، چنانچہ اس کے جواب میں میں نے "ISLAM THE ALTERNATVIE'' لکھنا شروع کیا اور دن رات ایک کر کے تین ہفتے کے اندر اسے تیار کر دیا۔ اس کتاب میں میں نے یہ بتایا کہ تاریخ ختم نہیں ہوئی، بلکہ اسلام انسانیت کا نجات دہندہ ہونے کی وجہ سے موجودہ نظام کی ناکامی کے بعد واحد متبادل ہے اور موجودہ دنیا کو تباہی سے صرف اسلام ہی بچا سکتا ہے۔ پوری دنیا کو اسلام کے بارے میں غور و خوض کرنا چاہیے، اسلام فرد اور سماج کے تمام مسائل کا واحد حل ہے۔ یہ ایک اللہ کا نام ہے، جو انسانی فطرت کے مطابق ہے، اسے اسی اللہ نے بنایا ہے، جس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اس کتاب کو میں نے آٹھ پبلشرز کے پاس بھیجا۔ دو نے شائع کرنے پر رضا مندی ظاہر کی اور ایک کے ساتھ میں نے معاہدہ کر لیا۔ جرمنی کے ایک اہم پبلشرز نے ١٩٩٢ء کے موسم بہار میں کتاب شائع کی۔ کتاب کا بازار میں آنا تھا کہ ہر طرف سے مذمت ہونے لگی ۔ پریس ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گیا۔ اخبارات کے پہلے صفحے پر میری مذمت کی جانے لگی اور یہ لکھا جانے لگا کہ یہ شخص کہتا ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹے جائیں، زانیوں کو سنگسار کیا جائے، بے چاری ہوف مین کی بیوی کی تین سوتنیں آئیں گی۔ محکمہ خارجہ میں خطوط کا انبار لگ گیا، جن میں میری اور میری کتاب کی خوب مذمت کی گئی۔ جب ہنگامہ زیادہ ہوا تو وزیر ِ خارجہ نے اپنے تین معاونین کی مدد سے کتاب کا گہرا مطالعہ کیا اور اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کتاب میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ اسلام کو Objective طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اسلام کا تعارف کرانے والی ہے اور جرمنی کے ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ ہندو، مسلم، بدھ اور عیسائی جو کچھ بننا چاہے، بنے اور جس مذہب پر چلنا چاہے، چلے، لیکن اخبارات کے حملے جاری رہے اور وہ لکھتے رہے کہ ایک جرمن سفیر لوگوں کو خودکشی کی ترغیب دے رہا ہے۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ ایک شخص نے چار ہفتے تک میرے پاس کام کیا، پھر کسی وجہ سے خود کشی کر لی۔ وہ خود کشی بلاوجہ میرے کھاتے میں ڈال دی گئی، اسی طرح اخبارات نے یہ لکھا کہ اس شخص نے سفارت خانے کی خواتین اسٹاف کو اسکارف اوڑھا دیا ہے، حالانکہ یہ بات بھی غلط تھی۔ جہاں میں تھا، وہاں مسلم خواتین سر کو نہیں ڈھانکتی تھیں تو دیگر تمام جرمن خواتین کو سر کیسے ڈھانکیں گی۔ یہ اتفاق تھا کہ میری مذکورہ کتاب ایسے وقت میں منظر عام پر آئی جب سلمان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب "SATANIC VERSES" (شیطانی آیات) کے خلاف ہنگامہ جاری تھا اور اس سے ایک سال قبل مغربی ممالک نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ ان حالات میں یہ کتاب کافی مقبول ہوئی ، غرض یہ کہ یہ وہ حالات ہیں، جن میں میں نے اسلام قبول کیا۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment